غزہ شہر کے پرہجوم ’الاہلی ہسپتال‘ میں گذشتہ رات ہونے والے ایک بڑے دھماکے میں سینکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ فلسطین کی مقامی وزارتِ صحت کے مطابق اس واقعے میں اب تک 471 افراد ہلاک جبکہ 314 زخمی ہوئے ہیں۔

اس دھماکے کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے زیر کنٹرول فلسطینی حکام نے اسرائیل پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا فضائی حملہ تھا۔ اسرائیل نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے درمیان، سچ تک پہنچنا اب پہلے سے کہیں زیادہ مشکل نظر آتا ہے۔

ویڈیو فوٹیج، تصاویر، دیگر شواہد اور عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں ’بی بی سی ویریفائی‘ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس ضمن میں اب تک کیا معلوم ہے اور کیا معلوم نہیں۔ اس کے علاوہ بی بی سی کے ایک صحافی نے دھماکے کی جگہ کا دورہ بھی گیا، اگرچہ متاثرہ مقام تک رسائی محدود ہے۔

اس حوالے سے نئی معلومات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے اسی لیے ہم اس رپورٹ کو نئے شواہد کی روشنی میں اپ ڈیٹ کرتے رہیں گے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ حملوں اور جوابی حملوں کے ساتھ ساتھ یہ تنازع معلومات کی جنگ کے طور پر چل رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسرائیل اور غزہ میں حکام نے دھماکے کے بارے میں بالکل مختلف بیانات دیے ہوں۔ ہم ان کے مختلف دعوؤں اور بیانات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

دھماکہ

ہسپتال میں دھماکہ منگل کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً شام سات بجے ہوا۔ سوشل میڈیا پر گردش کر نے والی ایک 20 سیکنڈ کی ویڈیو اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والے فوٹیج ثبوت کا پہلا اہم حصہ تھا۔

س میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ کسی اُڑنے والی چیز (پروجیکٹائل) کی سیٹی جیسی آواز سُن سکتے ہیں، جس کے فوراً بعد ایک دھماکہ ہوتا ہے اور ایک بہت بڑی آگ بھڑک جاتی ہے۔

مقامی وقت کے مطابق چھ بج پر 59 منٹ پر الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک پر نشر کی جانے والی ایک لائیو فوٹیج میں غزہ کے اوپر آسمان پر ایک چمکدار روشنی بڑھتی ہوئی دکھائی گئی۔ کچھ مبصرین نے تجویز کیا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ایک راکٹ ہو سکتا ہے، جو پھٹتا ہے اور بکھر جاتا ہے۔ فوٹیج میں دور روشنی کا ایک جھپاکا نظر آتا ہے، اس کے بعد کیمرے کے قریب ایک بہت بڑا دھماکہ ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا چینلز پر سامنے آنے والی دیگر فوٹیج میں بھی اسی دھماکے کو مختلف زاویوں اور فاصلے سے دکھایا گیا ہے۔

ہم نے ماہرین سے رابطہ کیا کہ آیا دستیاب شواہد بشمول دھماکے کے پھیلاؤ اور سُنی جانے والی آوازیں اس دھماکے کی وجہ کا تعین کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

اب تک سامنے آنے والے نتائج غیر حتمی ہیں۔ بی بی سی ویریفائی نے ہتھیاروں کے متعدد ماہرین کو دستیاب ثبوت دکھائے ہیں، جن میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ یہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا جس کی آپ ایک عام اسرائیلی فضائی حملے سے توقع کریں گے۔

امریکہ کی وینڈربلٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر جے اینڈریس گینن کا کہنا ہے کہ دھماکا چھوٹا معلوم ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایمپیکٹ سے پیدا ہونے والی بڑی حرارت کسی وار ہیڈ سے پھٹنے کے بجائے راکٹ کے بچ جانے والے ایندھن کی وجہ سے ہوئی ہو گی۔

برطانیہ میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ایک سینیئر ریسرچ فیلو جسٹن برونک اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ اس طرح کے ابتدائی مرحلے میں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے مگر شواہد سے ایسا لگتا ہے کہ دھماکہ ایک ناکام راکٹ کے کار پارکنگ میں ٹکرانے اور ایندھن اور پروپیلنٹ (چھروں) میں آگ لگنے کی وجہ سے ہوا تھا۔

جے اینڈریس گینن کا کہنا ہے کہ فوٹیج سے اس بات کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے کہ آیا پروجیکٹائل نے اپنے مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنایا۔

کئی ماہرین جن سے ہم نے بات کی وہ اس ضمن میں اپنا مؤقف یا نظریہ دینے کو تیار نہیں تھے۔

 اس جگہ پر موجود عمارتوں کی تفصیلات اور الاہلی ہسپتال کے لے آؤٹ کو عوامی طور پر دستیاب سیٹلائٹ تصاویر کے ساتھ ملانے میں کامیاب رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دھماکے کا مقام ہسپتال ہی تھا۔

دستیاب شواہد کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ دھماکہ اس کھلے حصے میں ہوا جو ہسپتال کا ہی حصہ ہے۔ دھماکے کے بعد موصول ہونے والی تصاویر میں ہسپتال کے آس پاس کی عمارتوں کو کوئی خاص نقصان نہیں دکھایا گیا ہے۔ تصاویر میں عمارتوں پر جلنے کے نشانات اور جلی ہوئی کاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ ہسپتال اینگلیکن چرچ کی ملکیت میں چلایا جاتا ہے۔

بیت المقدس کے سینٹ جارج کالج کے ڈین کینن رچرڈ سیول نے بی بی سی کو بتایا کہ جب یہ حملہ ہوا تو تقریباً 1000 بے گھر افراد ہسپتال کے صحن میں پناہ لیے ہوئے تھے جبکہ تقریباً 600 مریض اور ہسپتال کا عملہ عمارت کے اندر موجود تھا۔

 آج صبح اس ہسپتال گئے ہیں۔ وہاں موجود عینی شاہدین نے تباہی کے مناظر کو بیان کیا اور بتایا کہ جائے وقوعہ سے اب بھی لاشیں اکٹھی کی جا رہی ہیں۔

وہاں موجود ایک شخص نے بی بی سی کے رپورٹر کو بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو خواتین، بچے اور بوڑھے لوگ ہسپتال میں موجود تھے۔

ہم ابھی بھی اس دھماکے کے متاثرین کی تصاویر اور فوٹیج کا تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ اس ضمن میں وہ تفصیلات اکھٹی ہو سکیں جو اب تک ہم نہیں جانتے۔

ہم اب تک کیا نہیں جانتے

شواہد کے سب سے اہم ٹکڑوں میں سے ایک دھماکے کی جگہ پر پڑنے والے گڑھے کی نوعیت ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز کا کہنا ہے کہ دھماکے کے مقام پر بڑے گڑھے کی عدم موجودگی، یا دھماکے کے باعث ہسپتال کی ملحقہ عمارتوں کو پہنچنے والا نقصان یہ ثابت کرتا ہے کہ دھماکہ اسرائیلی ہتھیاروں یا راکٹوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔

آپ دھماکے کے مقام پر ایک چھوٹا سا گڑھا دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس ضمن میں مزید تفصیلات سامنے آئیں۔

نامعلوم شواہد کا ایک اور اہم حصہ میزائل کے ٹکڑے ہیں۔ پروجیکٹائل اکثر اپنے ملبے کی مدد سے قابل شناخت ہوتے ہیں اور ان کی مدد سے ان کی اصلیت کا تعین کیا جا سکتا ہے، یعنی وہ کہاں سے داغے گئے یا کون سا ملک یا تنظیم یہ اسلحہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں ہم نے اب تک یہ ثبوت نہیں دیکھے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here