قاضی آصف

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اکثریتی فیصلے کے بعد پورے ملک میں بحث ہنوزجاری ہے۔ اسے مختلف تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ زیادہ تر اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ اور حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی آئد کرنے کا اعلان تو کیا، لیکن، پھر تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا جا رہا ہے کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، قومی اسیمبلی میں اتحادیوں سے مشاورت ابھی باقی ہے۔

سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں وہی روایت کیوں برقرار رکھی جس کے تحت جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی دے دیئے گئے تھے جو اس نے مانگے ہی نہیں تھے۔ پھر ثاقب نثار کی عدالت نے عمران خان کو صادق امین کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا تھا جس کیلئے عمران خان نے کہا ہی نہیں تھا۔ اور اب عدالت گئی سنی اتحاد کونسل اور فیصلہ آیا پاکستان تحریک کے حق میں ،جو فریق تھی ہی نہیں، نہ اس نے ایسی کوئی درخواست دی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں جو پی ٹی آئی کے حق میں دریاء بہائے گئے۔ اس کا اصل نشانہ کوئی اور نہیں بلکہ حکومتی اتحاد کی پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کو ختم کرنا تھا۔ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ کیوں تھا، اس کے پیچھے کیا عوامل تھے، اس پر مختصر نظرڈالتے ہیں۔

پارلیمنٹ، اسٹبلشمنٹ پر نظر رکھنے والے پارلیمنٹیرین اور آئینی ماہرین کے سامنے معاملہ وہ نہیں جو میڈیا، سوشل میڈیا، یا عدلیہ کے فیصلے میں نظر آتا ہے۔ یہ خبر ان "انقلابی روحوں” کیلئے صدمے سے کم نہیں ہوگی کہ عدالتی فیصلہ کوئی انصاف کی نشانی نہیں ، جو بظاہر نظر آتا ہے، اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ مخالف ہے جس کی وجہ سے وہ خوشی میں ایک ٹانگ پر ڈانس کر رہے ہیں۔

پاکستانی عدلیہ، قیام سے اب تک چند ایک فیصلوں کے علاوہ کبھی آزاد نہیں رہی، وہ اسٹبلشمنٹ کا نہ فقط حصہ رہی ہے بلکہ اس کی ہدایات پر فیصلے کرتی رہی ہے۔ عدلیہ میں ججوں کی مقرری اور ہٹائے جانے کا اختیار بھی عدلیہ کو ہے۔ وہ خود ہی اپنی مقرری کرتے ہیں، خود ہی ترقیاں دیتے ہیں اور اپنا "احتساب” بھی خود کرتے رہے ہیں۔ جبکہ پڑوسی ملک میں ججوں کے احتساب اور ہٹانے کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے۔ اسی طرز پر موجود حکومت نے ایسی ہی قانونسازی کرنے کا عندیہ دیا جس سے ججوں کا احتساب اور ہٹانے کا اختیار پاکستان کی پارلیمنٹ کو ہو۔

اس ضمن میں تیاریاں بھی شروع کی گئیں تھی اور اتحادیوں نے آپس میں مشورے بھی کرلیئے تھے۔ اس کو مقصد یہ تھا کہ ججوں کے بے تحاشا اختیارات کی وجہ سے عدلیہ ہمیشہ پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑتی ہے اور پارلیمانی نظام کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی منشا اور منظور کے مطابق فیصلے دیتی ہے۔ جس سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے جتنے بھی اقدامات اٹھائے جائیں، تحاریک چلائی جائیں لیکن وہ تقریبا بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ عدلیہ اور مقتدرہ کا گٹھ جوڑ ملک کو آگے بڑھنے نہیں دے رہا۔ لہذا ضروری ہے کہ عدلیہ کا احتساب پارلیمنٹ کرے، کیونکہ قانونسازی بھی پارلیمنٹ کرتی ہے تو ججوں کی کارکردگی پر نظر بھی پارلیمنٹ رکھے کیونکہ وہ ملک کا سپریم ادارہ ہے۔ یہ صورتحال ججوں کو کہاں قابل قبول ہوگی کہ وہ پارلیمنٹ، جس کو ججز کورٹ رومز میں بیٹھ کر تگنی کا ناچ نچاتے ہیں، وہ ان کا احتساب کرے؟

پاکستان کے سینئر پارلمینٹیرین، آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر جس طرح کا فیصلہ دیا گیا ہے وہ اسٹبلشمنٹ کی مرضی بھی شامل ہے۔ یہ ان کا مشترکہ فیصلہ ہے، مقصد یہ ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد کی قومی اسیمبلی میں دو تہائی اکثیریت کو ختم کردی جائے تاکہ وہ بہت بڑے فیصلے نہ کرپائیں۔ جو انہوں نے فوری فیصلہ کرنا تھا وہ ججز کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کرنا تھا۔ دیگراہم فیصلے بھی ہونے تھے۔
پی ٹی آئی جو اس وقت ملک کی سب سے بڑی "انقلابی” پارٹی بنی ہوئی ہے، اب عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ ان کے سہارے سے ہی ایک بار پھر پارلیمنٹ کو قدغن لگانے جا رہی ہے۔

باہر بیٹھے "میاں مٹھو انقلابیوں” کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس فیصلے میں کس کس کی رضامندی شامل تھی اور عدلیہ کا اصل نشانہ کیا تھا؟ مقصد پی ٹی آئی کو فائدہ دینے سے زیادہ پارلیمنٹ کو عدالتوں کے بارے میں فیصلے کرنے سے روکنا تھا۔ عدلیہ نے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثیرت ختم کرکے اپنے گرد تحفظ کا بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھتے ہیں حکومتی اتحاد کس حد تک جاکر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here