بلے کا نشان کیوں واپس لیا؟ تجزیہ کاروں کا واویلا
بلے کا نشان کیوں واپس لیا؟ تجزیہ کاروں کا واویلا

 خورشید علی شیخ

khursheed shaikh

پی ٹی آئی کو بلے کا نشان ‏‎دیا جائے یا نہیں، اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی لائیو کورٹ پروسیڈینگ تھیں، پی ٹی آئے کے اتنے قابل وکلاء کی ایک کثیر تعداد ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں پیروی کرتی نظر آئی، مگر کوئی ایک بھی قانون کے مطابق ججوں کے سوالات کا جواب نہ دے سکا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف سے بالکل سیدھے سادے سوال پوچھے. پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیسے کیا؟

پارٹی کے امیدوار کون کون تھے؟ بیلٹ پیپر کہاں ہیں؟ الیکشن کروائے تو انکے ثبوت کہاں ہیں؟

‏آپ نے 91 لوگ بلا مقابلہ منتحب کئے ان سے کتنی فیس لی؟

پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کیش لیا کوئی بینک ریکارڈر کوئی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہے. یہ جواب کسی مہذب ملک میں کوئی سیاسی پارٹی عدالت میں دیتی تو ان پر ہمیشہ کیلئے پابندی عائد کر دی جاتی. کیش اور بغیر بینک کے رقم بلیک منی کہلاتی ہے جو ٹیکس بچانے کیلئے چھپائی جاتی ہے یہ آج کی مہذب دنیا میں سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے. ان سوالوں کے جواب اور ثبوت تحریک انصاف فراہم نہیں کرسکی اس میں سپریم کورٹ کا قصور کیا ہے؟

‏‎جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ آج کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگ رہا لیکن وقت یہ ثابت کرے گا کہ انکا یہ فیصلہ غیر مقبول تو ہوسکتا ہے لیکن یہ جمہوریت کی مضبوطی کی داغ بیل ڈالے گا۔ وقت کیساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی بنیاد یہی فیصلہ بنے گا۔

‏‎‎حقائق کا سبکو پتا ہے کہ اس کیس میں PTI کے وکلاء کے پاس نہ تو دلائل تھے اور نہ ہی متعلقہ دستاویزات لیکن حامد میر جیسے منافق تجزیہ کار صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے PTI کے فالورز کو اپنی طرف متوجہ کرانے اور سوشل میڈیا پر اپنے ویوز بڑھانے کیلئے بھونڈی دلیلیں دیتے رہے اور یوتھڑ صحافیوں کی طرح ہنوز عوام کو گمراہ کررہے ہیں. ‏‎ہمارے چند نام نہاد تجزیہ نگار قانون کی تشریح اپنی ہی سوچ اور مرضی سے کرتے ہیں انکو قانون کی بات اور زبان سمجھ نہیں آتی۔ اب اگر سپریم کورٹ قانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہے تو اس میں بنیادی حقوق کی بات لے آتے ہیں مگر سپریم کورٹ نے اب انکے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے.

‏‎لعنت ہے ان خودساختہ تجزیہ نگاروں اور جعلی ارسطوؤں پر جو ٹی وی پروگراموں میں آ کر اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے آئین و قانون پر بھاشن دیتے ہیں اب سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں،  ان شرپسند عناصر کے فساد سے اللہ تعالٰی بچائے یہ ہی عمران نامی اس مہاتما کی تشہیر میں ضمیر کا سودا کرنے پر لگے ہوئے تھے آج اس لئے چاہتے ہیں کہ اس کے گناہ معاف کردئے جائیں کہ وہ ملک میں فساد اچھا پھیلاتا ہے.

‏‎کچھ لنڈے کے منافق فلاسفروں کو سن کر اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ کسی کو قانون و آئین کی ضرورت نہیں سب کو نظریہ ضرورت چاہئے. اگر یہی کرنا ہے تو ملک میں قانون کس لئے بنائے جاتے ہیں. یہ بدبخت سارا سال ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر قانون کا رونا روتے ہیں جب قانون کے مطابق فیصلے ہوجائیں تو ان کو پاپولر فیصلہ چاہئے قانون کے مطابق نہیں.

‏میں تھوکتا ہوں ویوز ریٹنگ اور مردار گوشت سے بد تر چند ڈالروں پر. یہ انتہائی ایماندار اور دلیر جج  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج کم از کم اس صف میں تو کھڑا ہے جہاں محترم ترین جسٹس اے آر کارنیلیئس اور جسٹس دراب پٹیل جیسے چند سربلند لوگ ہی کھڑے ہیں. اور جسٹس فائز عیسی اپنے بلند کردار کے سبب سب کیلئے انہی نامور ججز کی طرح محترم ہیں ورنہ  ہماری عدالتی تاریخ تو جسٹس منیر، انوارالحق، ثاقب نثار، آصف کھوسہ، مظاہر نقوی، جاوید اقبال اور عطا بندیال جیسی غلاظتوں سے بھری پڑی ہے. ‏تمام غیر جانبدار صحافیوں کو سن کر اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنا کیس بیرسٹر گوہر علی خان، علی ظفر اور لطیف کھوسہ کی بیوقوفیوں اور بڑبولے پن کیوجہ سے ہاری.

صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یہ نام نہاد وکلاء کا ٹولہ نہ صرف اپنے ووٹرز بلکہ عدالت کے سامنے اور خود سے بھی جھوٹ بول رہا تھا، بیرسٹر گوہر علی کی چالاکیاں دیکھ کر قاضی ‏فائز عیسیٰ کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ جناب آپ نے سیاسی بیان بازی کرنی ہے یا پھر قانونی طور پر کیس لڑنا ہے؟ یہ دلائل کے بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ ڈیپینڈ کر رہے تھے اور انکی کوشش تھی کسی طریقے سے قاضی فائز عیسیٰ کو پریشرائز کیا جائے اور وہ قانونی غلطیاں نظر انداز کر کے انکے حق میں ‏فیصلہ کر دیں، لیکن سامنے فائز عیسیٰ تھا جو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کسی پریشر سے نہیں ڈرتا، اس شخص نے پوری زندگی صرف آئین و قانون کی بات کی یے، کل عدالت ان وکلاء کی بہت ساری غلطیاں درگزر کرکے آگے بڑھتی گئی لیکن ان نکموں کے پاس کسی ایک سوال کا جواب یا ثبوت موجود نہیں تھا.

‏‎ایسے لوگوں کا احترام کیسا جو لوگ قاضی اور ثاقب کو ایک جیسا کہہ رہے ہیں؟ دراصل یہ لوگ چاہتے تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ بھی ماضی کی طرح نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی فیصلہ دیتے۔ لیکن انہوں نے قانونی اور آئینی فیصلہ دے دیا جس کی انہیں سخت تکلیف ہے. ‏‎اگر آپ کو پی ٹی آئی پر کسی لمحے بھی ترس آنے لگے تو خود کو یاد دلوا دیجئے گا کہ انہوں نے آقا ﷺ کے مہمانوں کی ردائیں اور بال کھینچے اور اُس جگہ ہلا گُلا کیا تھا جہاں آہستہ بولنے کا حُکم قرآن میں آیا ہے۔ ان کی سیاست دھوپ میں پڑی برف کی طرح پگھلتی دیکھئے اور عبرت پکڑئیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here