آخری بار جب ایران کے صدر نے ریاض کا دورہ کیا تو محمود احمدی نژاد اس وقت اس عہدے پر فائز تھے۔ اس دورے کو اب 11 برس بیت چکے ہیں اور اس نقطہ نظر سے ابراہیم رئیسی کا ریاض کا سفر خاص اہمیت کا حامل ہے۔

لیکن ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے معاملے سے ہٹ کر بڑا سوال یہ ہے کہ ابراہیم رئیسی اسلامی تعاون تنظیم کے دیگر 56 رکن ممالک کو اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مطلوبہ پالیسی کے ساتھ کس حد تک قریب لا سکتے ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم کی ایک طاقتور اور بااثر بین الاقوامی تنظیم بننے میں ناکامی کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس تنظیم کے 57 رکن ممالک کے درمیان اختلافات ہیں۔

اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی جنگ نے ان ممالک کو ایک ہی محاذ پر کھڑا کر دیا ہے اور جنگ کے خاتمے جیسے مطالبات پر وہ مشترکہ رائے رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اپنی پوزیشن بالکل محتلف ہے۔

اس وجہ سے ابراہیم رئیسی کے سامنے ایک بہت مشکل مشن ہے تاکہ ایرانی حکومت کا مؤقف پیش کیا جائے۔ جنگ کے خاتمے کی درخواست اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے قطعاً قابل قبول نتیجہ نہیں ہے۔

تہران کوشش کر رہا ہے کہ اس صورت حال کو ایک موقع کے طور پر اسلامی ممالک اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی رشتے کو زیادہ سے زیادہ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

اس وجہ سے اسلامی ممالک کے فضاؤں کو اسرائیلی طیاروں کے لیے بند کرنے جیسی درخواستیں یا اس سے بھی زیادہ سنجیدگی سے، اسرائیل پر تیل کی پابندی ان آپشنز میں شامل ہیں جو ممکنہ طور پر ایران کی طرف سے حل کے طور پر تجویز کی جائیں گی۔ ایسے اقدامات جن کی قیمت اسرائیل کو حقیقی معنوں میں بھگتنا پڑے گی۔

اگر ایران ان ممالک کو سنجیدگی سے اسرائیل کو سزا دینے کے لیے کوئی بے مثال قدم اٹھانے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف غزہ کی مدد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا بلکہ اسے علاقائی سطح پر ایک اہم سفارتی فتح بھی حاصل کر لے گا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here