شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ از خود نوٹس سے متعلق اپنے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور بینچ کی تشکیل کرنے کے اختیارات چیف جسٹس کے بجائے ججوں کی ایک تین رکنی کمیٹی کو دینے کی تجویز ہے جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے تاہم سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس قانون پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔
سوموار کو سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت حکم امتناعی برقرار رکھتی ہے تو بطور چیف جسٹس انھیں ہی فائدہ ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی دلائل دینے آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ رولز کو چھوڑیں، آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔