عمرکوٹ ( اے بی آریسر ) پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال مالہی نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے ایک شہری کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنا افسوسناک عمل ہے۔ اپنے جاری کیئے گئے ایک بیان میں لال مالہی نے کہا کہ پاکستان کا آئین و قانون اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر المذہب ملک ہے اور اس پرتمام پاکستانیوں کا برابر کا حق ہے۔ مندر کی تعمیر سے نہ صرف اسلام آباد میں رہائش پذیر ہندو برادری مستفید ہوگی ، بلکہ دنیا بھر سے اسلام آباد آنے والے ہندو اور دیگر سیاح بھی مستفید ہوسکیں گے۔ لال مالہی نے کہا کہ اسلام آباد میں کرشنا مندر کی تعمیر کی مخالفت وہ عناصر کر رہے ھیں جو پاکستان کے سافٹ امیج کے مخالف ہیں۔ وہ عناصر قائد اعظم محمد علی جناح کے اس نظریئے کے بھی مخالف ہیں جو انہوں نے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں بیان کیا تھا۔
بانی پاکستان نے واضح کہا تھاکہ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لال مالہی نے کہا کہ کرشنا مندر کے لیے H-9/2 میں 4 کنال پلاٹ نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کی ہدایت پر CDA نے 2017 میں ہندو پنچائت اسلام آباد کو الاٹ کر کے قبضہ دیا تھا۔ مندر کے پلاٹ کے برابر میں کرسچن کمیونٹی اور پارسی کمیونٹی کو بھی ان کی مذہبی عبادت گاہیں بنانے کے لیے پلاٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ایک ہفتہ پہلے 23 جون کو کرشنا مندر کی تعمیر کا باقائدہ افتتاح ہو چکا ہے اور اس وقت چاردیواری کی تعمیر جاری ہے۔ 25 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے اقلیتی ارکان اسمبلی کے وفد سے ملاقات میں مندر کے لیے فنڈز فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اور اس سلسے میں وفاقی وزیر برائے مذھبی امور نورالحق قادری کو ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ لال مالہی نے کہا کہ انہیں یقین ہے معزز عدالت نہ صرف اس پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دے گی لیکن کورٹ کا قیمتی وقت ضایع کرنے پر درخواست گذار پر جرمانہ بھی عائد کرے گی۔