پاکستان میں پہلے اس موضوع پر اس طرح نہیں لکھا گیا۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی مسجد کی ہے جو تاریخ کے کئی اہم کرداروں سے لے کر مذاہب ثقافتوں کے عروج زوال کی گواہ ہے۔ ماضی کے بدترین کرداروں سے لے کر مذہبی جنونیت کی ہر رسم کو اس مقام پر بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یہ جامعہ مسجد اموویہ، دمشق کے بیچ و بیچ واقع ہے، اس کی تعمیر رومن نے 700 ہجری میں اپنے مقدس خدا جوپٹر کے نام سے چرچ کے طور پرکروائی تھی جوپٹر رومن کے نزدیک وہ خدا ہے جو ان کی دفاعی زمہ داریاں لئے ہوئے ہے اس کو ہوا اور بارش کا خدا بھی مانا جاتا ہے کرسچن کے نزدیک اس چرچ کی بڑی تاریخی اہمیت تھی لوگ میلوں کا سفر طے کرکے یہاں اپنے خدا سے ملنے آتے تھے یوں کہیے کہ جنگی حالات میں اس چرچ کی اہمیت اور بڑھ جاتی تھی چرچ میں ایک کنواں بھی ہے جس کی صلیب پر نومولود بچوں کو لٹا کر ان کے سینے پر پلس کا نشان بنایا جاتا تھا تاہم بعد میں اس کنویں میں سر کاٹنے کی رسم بھی انجام پائی۔
اس چرچ کا نقشہ رومن کے زمانے میں دمشق کے رہائشی اپولوڈوس نے بنایا تھا بعد میں مسجد بناتے وقت مصور سازی کو خاص اہمیت دی گئی تھی جس کی مدد سے شہر کی مشہور نہر برادہ شیشم اور زیتون کے ہرے بھرے درختوں کو دیواروں پر رنگین نقش ونگار سے بنایا گیا تھا۔
فن موسیقی، شاعری ،رقص ،ڈرامہ دمشق کے بازاروں میں عام تھا یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس شہر کے قدیم لوگوں کو آرٹس سے بے تحاشہ لگاؤ ہے۔
مسلمانوں نے جب شام کو فتح کیا تو سب سے پہلے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا۔ مسجد کے دائیں حصے پر تخت لگایا پھر ہر کچھ قدم کے فاصلے پر محراب بنائے گئے چونکہ مسجد کا حصہ کافی بڑا تھا اسلیئے اس میں بیٹھک کی بھی خاص جگہ بنائی گئی تھی ۔سفیروں اور وزیروں کے لئے مسجد میں کرسیاں لگائی گئی اور عیسائیوں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔
اس عمل پر عیسائیوں کی بڑی تعداد احتجاجاً بیت المقدس جاکر رہنے لگی کیتھولک نے ایک اور قدیم چرچ جو باب توما سے قریب ہے اسکو اپنی عبادت گاہ بنا لیا مسجد کے عقب پر محلات کا ایک سلسلہ ہے جن کی تعمیر کی تاریخ امووی دور سے صلیبی جنگوں کے بعد تک ملتی ہے۔
مسلمانوں میں محلات بنانے کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا اس دور میں شام ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا تھا دور دور سے لوگ خرید و فروخت کے لئے یہاں پتھاروں کی صورت میں ڈیرے ڈالتے تھے اور محل یعنی مسجد امووی کے گرد جمع رہتے تھے جس کی وجہ ملک میں آنے والے سفیر تھے جن میں اکثر کا تعلق روم مصر فارس سے ہوتا تھا امیر امیر ہو رہا تھا اور غریب غریب تر یوں امت نے اولیا سے امراء کاسفربڑی خوبی سے طے کرلیا تھا۔
چودہ سو ہجری میں اس مقام نے تاریخ کا ایک بدترین کردار بھی دیکھا جس نے مسجد کا وہ مقام جہاں سر حضرت یحییٰ علیہ السلام دفن تھا اس پر بندر نچانے کاکام کیا گیا۔
واقعہ کربلا کے بعد آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قید کرکے اس محل میں لایا گیا تو سات سو کرسیوں کا انتظام کیا گیا جس پر کئی ملکوں کے سفیر بیٹھے تھے اسی مقام پر بی بی زینب سلام اللہ علیہ نے اپنا تاریخی خطبہ دیا۔ جس سے بیشتر عیسائی ملکوں کے سفیر سوال اٹھانے لگے کہ یزید تم نے کہا تھا کہ یہ باغی ہیں یہ تو تیرے رسول کی اولاد ہیں سات اذانوں کی رسم بھی اس دور سے اس مسجد میں متعارف کروائی گئی جو آج تک قائم ہے یہ رسم اسوقت رائج ہوئی جب حضرت زین العابدین ع جو کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند تھے قید ہوکر آئے تو آپ نے اپنے خطبے کا آغاز کیا مگر حاکم وقت نے انکی آواز کو دبانے کے لیے سات مؤذنوں کو حکم دیا کہ ایک کے بعد ایک لگاتار سات کے سات مؤذن اذان دیں۔ یوں آج بھی جامع مسجد میں سات اذانیں اسی طرح دی جاتی ہیں چونکہ ملک میں ہر ایک کے رسم و رواج کی پاسداری ہے اسی لئے ہر ایک کے مذہبی عمل پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے جو اپنی مذہبی روایات قائم رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے۔
اس مقام پر وہ جگہ بھی ہے جہاں سر امام حسین علیہ السلام رکھا گیا تھا تو آج بھی زائرین کی بڑی تعداد اس مقام کی زیارت کرنے آتی ہے مجالس کا اہتمام ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے امووی دور کے بعد عباسی حکومت آئی جس کو شام سے کوئی لگاؤ نہ تھا اس لیئے مسلمانوں کا دارالخلافہ شام سے منتقل کردیا گیا جس کے سبب مختلف مذاہبِ کے لوگ اپنی عبادتیں آزادی سے سر انجام دینے لگے۔
صلیبی جنگوں کے بعد صلاح الدین ایوبی نے پھر اس مسجد کو اپنا اہم مرکز بنایا۔ انکی قبر بھی اسی مسجد کے عقب میں موجود ہے بازار حمیدیہ کے مرکزی دروازے سے آتے ہوئے صلاح الدین ایوبی کا مجسمہ نسب ہے جس کو آثارِ قدیمہ کی اہمیت حاصل ہے۔
مسجد امووی آج دنیا کا ساتواں اہم آثارِ قدیمہ ہے 2012 میں جنگ کے دوران اس کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ اس مقام پر آج بھی سیاحوں کی بڑی تعداد تاریخ کے ورق کھنگالنے آتی ہے موجودہ دور میں یہاں خصوصاً رمضان میں افطار سے لے کر تراویح کا بہترین انتظام ہوتا ہے، حکومتی سطح پر نماز عید ادا کی جاتی ہے، چاند کے اعلانات بھی اسی مسجد سے ہوتے ہیں ربیع الاول میں میلاد منعقد کئے جاتے ہیں، اس مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آج بھی اپنی اصل قدیم شکل میں موجود ہے۔
ویسے تو تقریباً پورے شہر کی تمام پرانی عمارات کو قدیم انداز میں بہترین طریقے سے محفوظ کیا ہوا ہے جس سے تاریخ کے صفحے بآسانی پڑھے جاتے ہیں اور ایک کہانی کی طرح اس شہر کو دیکھ کر پڑھنے کا مزہ آتا ہے۔
نوٹ: فروا علی دمشق میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ تحریر خصوصی طور پر وی این ایس کیلئے لکھی گئی۔
Masha Allah behtareen tehreer