Damascus, Farwa Ali
فروا علی

دمشق سے خصوصی تحریر

پچھلے گیارہ سالوں سے جاری جنگ کے دوران اب تک کئی مائیں بہنیں بیٹیاں یتیم بچے صبح نماز عید کے بعد ہاتھوں میں جھاڑ کے گلدستے لئے قبرستان کا رخ کرتے ہیں جھاڑ کے اس لئے کیونکہ گلاب کی قیمت مہنگی ہے اور جھاڑ سستے ہیں افورڈایبل (affordable) ہیں قبروں پر کھڑے ہوکر مدفن سے بات چیت کرتی ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جو خاندان کے واحد فرد ہیں جوزندہ ہیں باقی سب قبر میں ہیں باوجود اس کے نہ عید کو کوستے ہیں نہ عید منانے والوں کو شاید کوئی جبل الصبر ان کے ساتھ ہے قبرستان سے نکل کر لوگ حرم سیدہ زینب سلام اللہ علیہ میں آتے ہیں جن میں جوان بیٹوں کی مائیں اپنے شہید بچوں کی کئی بیوائیں شوہروں کی بہنیں بھائیوں کی تصاویر لے کر ایک دوسرے کو”کل عام وانتم بالخیر ” یعنی عید کی مبارک باد دیتی ہیں اس سال بھی ایسی ہی مناظر دیکھنے کو ملے ہاتھوں میں گلدستے لئے ٹھنڈ میں جب جب صبح صبح بچے اپنے والد کی قبر پر عیدی مانگ رہے تھے تو مائیں تسلی دیتے ہوئے کہ رہی تھی کہ بابا نے کہا ہے "ماما عیدی دیں گی میں بہت دور ہو”!

زندگی جینے کا نام ہے توملک شام میں شام ہوتے ہی لوگ نئے لباس ملبوس کرتے ہیں گھروں میں مٹھائیاں دیگر لوازمات تیار کرتے ہیں ٹافیوں کے ٹھیلے جگہ جگہ لگے ہوتے ہیں ایک دوسرے کے گھر ٹافیاں اور مٹھایاں لے کر جاتے ہیں بچے شام کو کئی سالوں کی جنگ سے اسلحے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کھلونوں کی پستولوں سے ایک دوسرے۔ کے نشانے باندھتے ہیں سوچو تو شاید جس جس جگہ جنگ ہے وہاں بچوں کی ذہنی مطابقت اسی طرح کی ہوچکی ہوگی چا ہے وہ یمن ہو یا افغانستان سوڈان ہو یا بحرین شام ہو یا یوکرین انسان تو وہاں بھی خوش رہنا چاہتے ہونگےہر مذہب کے لوگ اپنے تہوار منانے کی چاہت رکھتے ہونگے مگر کون ہے جو انسانیت کو سولی پر چڑھا کر موت کا رقص دیکھتا ہے آنا کی تسکین کی جنگیں جو حدود سے باہر ہوگئی ہیں نا جانے کس کس سے اور کیا کیا لیں گی یہ عید و دیگر تہوار دنیا میں رسم کی حد تک منائیں جارہے ہیں ورنہ اصل خوشی تو امن ہے غربت نہ ہونا ضرورت زندگی اور آزادی کا موجود ہونا ہے شام کی طرح شاید ہر مصیبت کے مارے ملک میں لوگ یہ سوچ رکھنے کے عادی ہوچکے ہیں

کہ موت برحق ہے جس سے لوگوں کا فاصلہ بمباری اور دھماکوں تک کا ہے دورانیہ ایک سیکنڈ اور خمیازہ نسلوں کی تباہی سالوں گزر گئے ہزاروں حادثات ہوگئے لاکھوں افراد سیکنڈ میں پیاروں سے بچھڑ گئے مگر ساری انسانیت چپ ہے اور لواحقین اپنے دلوں پر زخم سجائے ہر تہوار کو عادتا منائیں جارہے ہیں کیونکہ اس صدی میں زندگی گزارنے کا نام ہے جس دور میں اسلحے کی نمائش اور انسانیت کی پیمائش قابل دید عمل ہو وہاں جنگیں جاری رہتی ہیں اور انسانیت صلیب چڑھتی ہے

زندگی #موت کی امانت ہے !!!

فروا علی دمشق میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔انہوں نے یہ مضمون خصوصی طور پر وی این ایس کیلئے تحریر کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here