قاضی آصف
روئے زمین کی دور جدید کی تاریخ میں اگر کوئی مثال تلاش کی جائے کہ ایک تعمیراتی کمپنی کیسے ایک ریاست، ریاستی اداروں، میڈیا، بیشتر سیاسی جماعتوں پر قبضہ کرلیتی ہے تو اس وقت سندھ میں بحریہ ٹائون کنسٹرکشن کمپنی کی مثال بلا کسی مبالغے کے دی جا سکتی ہے۔
ہم نے ابھی تک کتابوں میں کمپنی ‘ایسٹ انڈیا کمپنی” کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس کمپنی نے کس طرح پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ قبضہ محض تجارت کے ذریعے نہیں ہوا تھا بلکہ بڑی خطرناک جنگیں بھی ہوئی تھیں۔ لیکن اب جب دنیا بہت ترقی کر چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور قبضوں کے طریقہ کار بدل چکے ہیں۔قبضے کیلئے جنگ ضروری شرط نہیں رہی تو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کنسٹرکشن کمپنی خاموشی سے کس طرح ایک صوبے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ایک لمیٹڈ کمپنی گذشتہ چودہ سالوں میں عملی طورپر ایک پورے صوبے پر قابض ہو گئی۔اب یہ حیرت کی بات نہیں رہی ہے میڈیا ہائوسز، نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔عدالیہ ، کمپنی کے ناجائز قبضوں کو ، جائز ہونے کی مہر لگا رہی ہے۔صوبائی، وفاقی حکومت ان کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہیں۔
کتنے کرب کی با ت ہے کہ صدیوں سے سرزمین پر رہنے والے صبح کو نیند سے جاگتے ہیں تو بلڈوز، شاول، کرینیں ان کے گھروں پر کھڑی ہوتی ہیں، اور یکایک ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ جو پرکھوں سے جس زمین اور گھر وں میں رہ رہے ہیں جن کو اپنا گھر سمجھ رہے تھے، وہ ان کے نہیں۔ یہ کوئی افسانوی یا تخیل سے گھڑی ہوئی بات نہیں لیکن آج بھی سرزمین پر جاکر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے پیروں تلے زمین کھینچ لی گئی ہے اور وہ منہ کے بل آکر گرے ہیں۔ ان کی خواتین اپنے دوپٹے سنبھالے ،کرینوں، شاولوں بلڈوزرس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں لیکن ان کی زندگی ایک ریٹائرڈ کرنل کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ چاہے تو ہیوی مشنری کو ان پرچڑھانے کا حکم صادر کرے یا انہیں زندھ رہنے کا حق اس شرط پر دے ، دے کہ اپنی آبا و اجداد کی زمین ، گھر چھوڑ کر چلے جائیں۔
گھرخالی کرنے سے انکار کرنے والوں کو کمپنی کے پرائیویٹ گارڈ، رات میں گھروں سے اغوا کرکے تشدد کرکے قریبی تھانے میں پھینک آئیں۔ ان سے پولیس پوچھے گی، نہ ضلعی انتظامیہ اور ناہی صوبائی و وفاقی حکومتیں۔ کراچی سے لیکر جامشورو تک ایک سو ساٹھ کلومیٹر کے بیچ میں رہنے والے اس دھرتی کے وارث اچانک "قبضہ گیر” کے نام سے پہنچانے جانے لگے ہیں۔ ان کے ہواس خطا ہوگئے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ جس کو نسل در نسل ووٹ دیا، اور جن تمنداروں، سرداروں، نوابوں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ان کے لوکل نمائندے کہاں چلے گئے ہیں؟ وہ مدد کیلئے کہیں سے آواز نہیں دے رہے،وہ کہیں بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ نظر آ رہے ہیں تو بحریا ٹائون کنسٹرکشن کمپنی اور ڈی ایچ اے کنسٹرکشن کمپنی کی ہیوی مشینری جو دن رات ان کے زمینوں پر قبضے کرتے، ہر چیز تہس نہس کرتے جا رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بحریہ ٹائون کنسٹرکشن کمپنی اور ڈی ایچ اے کنسٹرکشن کمپنی چار سو ، سو فٹ سے دو ہزار فٹ طویل پہاڑوں کو نگل کر صفہ ہستی سے مٹا چکے ہیں۔ تقریبا تیس سو قدرتی چھوٹے بڑے برساتی نالوں کے نام و نشان مٹا چکے ہیں۔ کھیرتھر رینج سے آنے والے اور مستقل بہنے والے آبشاروںپر قبضہ کر چکے ہیں۔ کم از کم ستر چھوٹے بڑے گوٹھوں کو کنسٹریشن کیمپ میں تبدیل کر چکے ہیں۔ ان کے گرد دیواریں اٹھاکر، بند کردیا گیا ہے۔ نہ ان کو بجلی کی اجازت ہے نہ پانی کی، نہ گذرگاہ اور روزگار کی۔ انکی تازہ سبزیاں اور فصل دینے والی ہزاروں ایکڑ زمین کو میدانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ وہاں کنسٹرکشن کرکے "ترقی” کی راہ ہموار کی جائے۔
الزام لگتا ہے کہ مقامی لوگ ہر چیز پر "نہ کھپی” کا نعرہ لگا کر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں۔ کچھ کرنے نہیں دیتے ہیں۔ یہ کنسٹرکشن کمپنیاں جدید شہر تعمیر کر رہی ہیں اور یہ پھٹے پرانے کپڑے ، ننگے پائوں اور بوکھے پیٹ والے لوگ اس ترقی کے دشمن ہیں۔ دنیا میں ترقی کا تصور کسی کو اجاڑ کر، ان کی املاق پر قبضے کرکے ، ان کی زبانیں کاٹ سڑکیں، محل تعمیرکرنا ہے تو یہ ان کا تصور ہے لیکن جو ترقی ان غریبوں کیلئے نہیں، کسی اور کیلئے ہے تو اس کو قبضہ گیری تو کہا جا سکتا ہے لیکن ترقی نہیں۔اس کیلئے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ "نہ کھپی”۔
ان کو اپنے گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں سکون سے رہنے کیوں نہیں دیتے۔ ان کے مویشیوں کے چارے کی زمینوں کو بلڈوزر کیوں چلاتے ہو۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
بحریہ ٹائون کنسٹرکشن کمپنی اور ڈی ایچ اے جدید دور میں اپنے ملک کے لوگوں کی املاک پر قبضہ کرکے نام نہاد ترقی کی خواہش کے ساتھ لاکھوں لوگوں اور لاکھوں ایکڑ آباد زمین کو اجاڑ چکے ہیں۔ یہ سزا مل رہی ہے سندھ کے لوگوں کو ہمیشہ وفاق کے حق میں ووٹ دینے کی؟پرامن جمہوری جدوجہد کرنے اور اس پھل کو پورے ملک میں بانٹنے کی؟
ان شہروں کی قیام کیلئے کوئی انوائرنمنٹ اسٹڈی کرائی گئی تھی۔؟ سندھ انوئرنمنٹ ایجنسی نے این او سی دی تھی تو کس بنیاد پر؟ سینکڑوں پہاڑوں کو زمین دوز کردیا گیا، سندھ کا مائینز اینڈ منرل ڈپارٹمنٹ کہاں ہے؟ ان کے پاس کیا تفصیلات ہیں؟ متعلق اضلاء کے ڈی سیز کے پاس کیا اعدادوشمار ہیں کہ کتنے لوگ بےگھر ہوئے کتنے ہزار زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہوئے؟ وہ یہ اعدادو شمار رکھتے ہیں نہیں کیونکہ وہ مقامی لوگوں کے ہیں۔ ان کا اسٹیٹس تو افغان مہاجرین جیسا بھی نہیں رہا، کہ ان کے رہائشی علاقوں کو تحفظ حاصل ہے۔
جب کسی ملک پر قبضہ کرنا ہوتا ہے تو وہاں کے لوگ ، املاک، زمین چاہیئے ہوتی ہیں۔ ہاں ان لوگوں کو جمہوریت تو چاہیئے ہوتی ہے لیکن، اپنی زمین پر حق کے شرط کے ساتھ۔ سندھ کے لوگوں نے جمہوریت اور وفاق کی سیاست کیلئے خون بہائے ہے، جانیں دی ہیں لیکن اس یہ قطئی مطلب نہیں کہ ان کی زمین، ذرائع روزگار، گھروں پر قبضے کرلیئے جائیں۔ یہ جمہوریت کا نیا کونسا تصور ہے کہ، جمہوریت کے بدلے کنسٹرکشن کمپنیز کے ذریعے پورے صوبے پر قبضہ کرلیا جائیگا۔ یہاں کے لوگ یہ کہنے کے حق بجانب ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کے زبردست حامی ہیں، آمریت کسی صورت قبول نہیں۔ لیکن یہ بھی قبول نہیں کہ رات و رات ان کے گھروں ، املاق اور وطن پر قبضہ کیا جائے۔ ؟ یہ کہنے میں کیا غلط ہے کہ اس وقت عملی طور پر سندھ پر کنسٹرکشن کمپنیوں کو قبضہ مکمل ہوچکا ہے۔انتظار یہ ہے کہ تاج کب اچھالے جاتے ہیں، تخت کب گرائے جائیں گے۔