ڈاکٹر شفقت عباسی
ایک سابق سرکاری افسر کی سرگزشت

انیس سو اسی 1980 میں سندھ میڈیکل کالیج کراچی میں میری سرکاری نوکری کی ابتدا ہائیجن (کمیونٹی میڈیسن) ڈپارٹمینٹ میں ایڈہاک بیسس پہ ڈمانسٹریٹر کے طور پہ ہوئی۔ اور کچھ چھ مہینے کے بعد میرا تبادلہ میڈیکولیگل آفیسر کے طور پہ کیا گیا اور تقریباً ڈیڑھ سال تک سول ھاسپیٹل کراچی، جناح ھاسپیٹل کراچی اور عباسی شہید ھاسپیٹل کراچی میں کام کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کی طرف سے امتحان پاس کرنے بعد آر ایم او سرجری سول ھاسپیٹل کراچی میں تعینات ہوا۔ پروفیسر مرحوم سرجن عبدالکریم صدیقی ، پروفیسر سرجن ایم اے نورانی، پروفیسر سرجن اقبال شیخ کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا اور اللہ پاک کے کرم سے چار سال تک مسلسل کام سیکھا اور اپنے جونیئرس کو سکھاتا بھی رہا۔ ۱۹۸۶ میں شادی ہونے کے بعد مزید پڑھائی نہیں کر سکا اور چونکہ دو کلنکس لیاری اور شیر شاھ میں چلانے اور مختلف ھاسپیٹلس میں پرائیوٹ سرجری کرنے کی وجہ سے چونکہ مجھے فل ٹائیم آر ایم او شپ کرنے میں دقّت پیش آرہی تھی اس وجہ سے سول ھاسپیٹل ہی میں آر ایم او جنرل ون ، جو کے ایڈمنسٹریشن کی جاب تھی ، پہ لوکل تبادلہ ہوگیا۔ اس جاب میں میری ذمیداری ساری ھاسپیٹل کے وارڈس کو دوائیاں اور دیگر سرجیکل سامان وغیرہ مہیا کرنا تھا۔ روزانہ اخبارات میں خبریں چھپتی تھیں کہ سول ھاسپیٹل کے آپریشن تھیٹرس میں اسپرٹ وافر تعداد میں میسر نہیں اور کبھی کبھی آپریشنز میں دقّت ہوتی ہے۔ میں نے جب اس کی وجہ اپنے اسٹاف سے معلوم کی تو پتہ چلا کہ اسپرٹ لائیٹ ہائوس سینما کے پاس ایک اسٹور سے ملتی ہے وہ بھی بلیک پہ اور ہم سرکاری حساب کتاب میں بلیک پہ خرید نہیں کرسکتے اس وجہ سے خرچہ کسی اور مد میں دکھا کہ اسپرٹ بلیک پہ خریدتے ہیں ، جس کا ذکر فائیلوں میں نہیں آتا۔ میں اپنے میڈیکل سپرنٹینڈٹ مرحوم ڈاکٹر صفدر صاحب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ سر اتنی بدنامی ہوتی ہے اخبارات میں اسپرٹ نہ ہونے کی وجہ سے تو ہم اپنے پاس کیوں ایک بڑی وافر مقدار خرید کے رکھ لیں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ بیٹا نئے آئے ہو اس وجہ سے آپ کو سرکاری طریقہ کار کا کچھ پتہ نہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اسپرٹ اوپن مارکیٹ میں ملتی نہیں ہے ، صرف چند اسٹورز کے پاس اس کا لائسنس ہوتا ہے وہ اس کو اپنے منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اور وہ اتنی بڑی تعداد میں دیتے بھی نہیں اس وجہ سے ہمیں بلیک میں لینی پڑتی ہے وہ بھی چالیس پچاس لٹر سے زیادہ نہیں مل پاتی۔ ہم اپنے فائیل میں جھاڑو پوچھے کی مد میں پیسے لکھتے ہیں اور اسی میں سے اسپرٹ خریدتے ہیں اور جب بھی ضرورت ہوتی ہے تو پھر سے کچھ تعداد میں خرید لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سر ہم خود حکومت سے لائسنس کیوں نہیں لیتے تاکہ ہم بڑی تعداد میں گورمینٹ ریٹ پہ خرید بھی سکیں اور پئسوں کی بچت بھی کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ بیٹا یہ اتنا مشکل طریقہ ہے کہ ہم وہ کر نہیں پائیں گے۔ سب سے پہلے ایکسائز ڈپارٹمینٹ سے پرمیشن لینی پڑے گی، اس کے بعد کسی شگر مل سے جاکر لینی پڑے گی ، آتے ہوئے اس ٹینکر کی انشورنس بھی کرانی پڑے گے کیونکہ اس میں آگ لگنے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ آبھی جائے گی تو اس کو رکھنے یا اسٹور کرنے کا طریقہ بھی یوں ہے کہ زمین کے اندر گہرائی میں رکھنی پڑتی ہے وہ بھی کچی زمین میں تاکہ خدانخواستہ اگر کبھی دھماکے کے ساتھ آگ بھی لگ جائے تو بلڈنگ کو نقصان نہ ہو۔ میں چونکہ نوجوان تھا ان کے تجربے کی باتیں سمجھنے اور قبول کرنے سے انکاری تھا۔ میں نے ضد کی کہ سر ہمیں سب سرکاری کام اصول کے مطابق کرنے چاہئیں ، آپ مجھے یہ ذمیداری سونپیں ، انشااللہ میں یہ سارے کام خود کروں گا او کامیابی سے کر لوں گا۔ انہوں نے مجھے اجازت دیدی اور ایک لیٹر ہیلتھ سیکریٹری کے نام دیا۔ میں وہ لیٹر لے کر ہیلتھ سیکریٹری سعید احمد صدیقی صاحب کے دفتر گیا ، انہوں نے اپنے سیکشن آفیسر عبدالسلام صاحب کو بلا کہ کہا کہ سیکریٹری ایکسائیز کے نام لیٹر اشو کرو تیس ہزار لیٹر اسپرٹ کی سالانہ پرمٹ کیلئے۔ سلام صاحب سے لیٹر لیکر سیکریٹری ایکسائز آفندی صاحب کے پاس گیا۔ افندی صاحب نے اپنے سیکشن آفیسر کو پرمیشن کے لئے لیٹر دینے کو کہا۔ اب جب میں ان سیکشن افسر صاحب کے پاس گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید یہ وہ اپنی جیب سے کوئی چیز مجھے دے رہا ہے۔بہت تکلیف ہورہی تھی اسے لیٹر نکانے کے لئے۔ دو تین دن چکر لگواتا رہا۔ پتہ چلا کہ اس پرمیشن پہ ان کو کافی رشوت دی جا تی ہے دکانداروں کے طرف سے ، اب جو مفت میں تیس ہزار لیٹر کا پرمٹ دیبا ہو تو اسے بہت بڑا بخار چڑھ رہا تھا اور چونکہ ان دکانداروں کو بھی تکلیف ہورہی تھی کہ اب وہ جو اتنی بڑی تعداد میں اسپرٹ خرید کرنے والے ان سے نہیں خریدیں گے تو ان کا بڑا نقصان ہوگا۔ کافی دن کی تکلیف کے بعد مجبوراً واپس سعید صدیقی صاحب ہیلتھ سیکریٹری کو آکر شکایت کی۔ سعید صاحب نے فوراً افندی صاحب کو شکایت کی جس نے اپنے سیکشن افسر کو بلا کے بہت ڈانٹا اور مجھے اپنے آفیس میں بٹھا کہ لیٹر منگوا کے ہاتھوں ہاتھ دے دیا ۔ سیکشن افسر کو میرے اوپر بڑا غصہ تھا مگر بول کچھ نہ سکا۔ مجھے پریشان کرنے کے لئے اپنے لیٹر میں نوابشاہ شگر مل سے اسپرٹ لینے کی پرمٹ دے دی۔ میں پریشانی میں پھر سعید صدیقی صاحب کے پاس گیا کہ سر نوابشاہ سےاسپرٹ لے کے آنے کے لئے ٹینکر کی انشورنس بھی کرانی پڑے گی اور کرایہ بی دینا پڑے گا ۔ایک تو مہنگی بھی پڑے گی اور ہمارے بجیٹ میں اس طرح کے کوئی پئسے نہیں رکھے ہیں جو انشورنس کو دئے جائیں۔ سعید صاحب نے سیکشن افسر سلام صاحب کو بلا کہ حکم دیا کہ اس لیٹر پہ کسی مقامی ڈسٹریبیوٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ کراچی سے ہی ان کو یہ میسر کرے اور یکمشت نہیں سال کے حساب سے چار قسطوں میں مہیا کیا جائے تاکہ ان کو اسٹور کرنے کی زیادہ پریشانی نہ ہو۔ سلام صاحب نے ایکسائز والوں کو کھ کہ ایک مقامی ڈسٹریبیوٹر کو پابند کیا کہ آپ ان کو یہ گورمینٹ ریٹ پہ سپلائی کریں گے۔

وہ صاحب چونکہ یہ ڈبل ریٹ پہ مارکیٹ میں بیچتا تھا اس وجہ سے بڑی تکلیف میں آگیا۔ اب اس نے شرط رکھی کہ آپ مجھے ایڈوانس میں چیک دیں گے تو میں سپلائی کروں گا ورنہ نہیں۔ ہمارے پاس کیش یا ایڈوانس دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا اور نہ ہے، لوگ سپلائی کرتے تھے ۂم ان کے بل اے جی آفیس بھیجتے تھے ، جہاں سے جب بل پاس ہوکے آتا تھا تو ہم ان کواپنی ھاسپیٹل کا چیک دیتے تھے ۔ اب مجبوراً مجھے کسی میڈیسن کے سپلائر کو منت کرنی پڑی کہ فی الحال یہ پئسے وہ دے دے اور جب بل پاس ہوکر آئے گا تو اس کو پیسے دے دیں گے۔ کوئی بھی اس بات پہ راضی نہیں ہورہا تھا، وجہ اس کی یہ تھی کہ ایک تو انہیں اس میں سے ملنا کچھ نہیں تھا اور ان کے کہنے کے مطابق اس بل پہ آپ کی ھاسپیٹل کے اکائونٹ افسر اور اکائونٹنٹ جنرل سندھ بغیر کمیشن کے بل پاس نہیں کریں گے ، وہ ہم کہاں سے دیں گے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ سے کوئی بھی اس بل پہ کوئی پیسہ نہیں لیگا، آپ مہربانی کر کہ یہ ایک کار خیر کا کام کردیں جس میں آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں مگر غریب مریضوں کا فائدہ ہے۔ بل آخر ایک پیارے انسان مرحوم سرفراز جو کہ شمیم میڈیکوز کے نام سے کاروبار کرتے تھے ، حامی بھر لی۔ پیسے ادا کردئے گئے اور اسپرٹ مہیا ہونا شروع ہوگئی۔ سب لوگ خوش تھے کہ آخرکار میری تین مہینے کر دھوڑ دھوپ کی وجہ سے اسپرٹ کا قحط ختم ہوا۔ اب سرفراز صاحب کے بل کا سفر شروع ہوا تو سب سے پہلے ہماری ھاسپیٹل کے اکائونٹ برانچ نے ان کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوری اسٹوری سنائی مگر وہ کوئی بات ماننے کو تیا نہیں تھے کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ بغیر فائدہ کے کوئی اتنے پیسے پھنسائے گا۔ جب کوئی طریقہ باقی نہیں بچا تو مجبوراً میں نے اکائونٹ آفیسر (جو اب اس دنیا میں نہیں) کا گلا پکڑ لیا کہ اب اگر تم نے اسکا بل آگے نہیں بھیجا تو میں ذاتی طور پہ تم سے لڑوں گا اور ماروں گا، اس نے مجبور ہو کہ اس کا بل پاس کیا اور اے جی آفیس بھیج دیا۔ اب جب اے جی آفیس میں بل پہنچا تو پھر وہی کہانی شروع ہوگئی کہ میاں ہماری کمیشن لائو ورنہ بل پاس نہیں ہوگا۔ وہاں پہ اس وقت کوئی راجپوت صاحب جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں، اسسٹنٹ اکائونٹنٹ جنرل تھے اور ان کو ہی یہ بل پاس کرنا تھا ۔ انہوں نے کوئی آبجیکشن ڈالا کہ اس کے ٹینڈر کیوں نہیں کیے گئے۔ میںکوئی دس بار ان کے پاس گیا منت سماجت کی کہ بھائی یہ ہم نے گورمینٹ کے کنٹرول ریٹ پہ لیا ہے اور سرفراز صاحب نے میرے کہنے پہ یہ کام کیا ہے ، ان کو اس میں ایک پیسے کا فائدہ نہیں مگر وہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میرے ایک کالیج کے کلاس فیلو سید محمد علی شاھ اس وقت ڈپٹی اے جی سندھ تھے مگر کسی اور سیکشن میں تھے ۔ میں ان کو بھی راجپوت صاحب کے پاس سفارش کے لئے لے کر گیا مگر اس نے ان کو بھی گھاس نہیں ڈالی۔ جون کا مہینہ آگیا ، اب سرفراز مرحوم بھی پریشانی ہونا شروع ہوگئی کہ کہیں بجٹ نہ لیپس ہوجائے اور ان کا بل پاس نہ ہو سکے۔انہوں نے مجھ سے معذرت کرتے ہوئے راجپوت صاحب کو تیس ہزار روپئے کمیشن دے کہ اپنا بل پاس کرالیا۔ مجھے آج تک اس بات پہ شرمندگی ہی رہی کہ میں اپنے وعدے کے مطابق ان کو اس کمیشن سے بچا نہیں سکا اور اس کے پئسے کافی مہینوں تک پھنس گئے۔ اس واقعے کے بعد میں نے غلطی میں بھی کسی کے لئے یہ ذمیداری نہیں اٹھائی۔ یہ سلسلہ یقین سے کہ سکتا ہوں کہ آج تک بھی جاری ہوگا اور شاید آگے بھی جاری رہے گا ۔ کئی حکومتیں آئیں اور آتی رہیں گی مگر شاید اس کو روک نہ پائیں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here