قاضی آصف
ان دنوں میں جب حزب اختلاف، حکومت، اسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اور جس تواتر کے ساتھ نواز شریف سمیت پی ڈی ایم کے جلسوں میں حکومت سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ ایسے میں مقتدرہ قوتوں کو ایم کیو ایم کے بانی بہت یاد آ رہے ہوں گے۔
کیا زمانہ تھا جب "اصل قوتوں ” کو سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور شخصیات کو "سیدھا” رکھنے کیلئے خود سامنے آنا نہیں پڑتا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ان کے کام ہوجایا کرتے تھے۔ الطاف بھائی کے ایک اشارے کی ضرورت ہوتی تھی۔ ٹی وی پر ایک عدد تقریر داغ دیتے۔ پورے شہر کراچی کی سانس بند ہوجاتی تھی۔
اگر وہ کسی حکومت کے اتحادی ہوتے تھے تو اس حکومت کی صبح و شام سانس اٹکی ہوئی ہوتی تھی۔ جب بھی "ان کو” حکومت کو راست پر لانا ہوتا۔ الطاف بھائی ایک عدد حکومت سے علحیدگی کی دہمکی دے دیتے، کیا مسلم لیگ ن، کیا پیپلزپارٹی، کیا مسلم لیگ ق، سب دوڑے آتے۔ الطاف بھائی کو منانے میں لگ جاتے۔
اس دوران الطاف بھائی ایک عدد "پرامن” احتجاج کی کال بھی دے ڈالتے۔ پورا شہر سکتے میں آجاتا تھا۔کون مرا، کیا املاک جلیں، کیا کیا خاکستر ہوا؟ کسی حساب کتاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ ایک لفظ لگ گیا تھا، یا ایجاد کیا گیا تھا۔ "نامعلوم افراد” سارے مقدمات، ان نامعلوم کے نام ہی ہوتے، تو پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ "تکلیف” بھی اٹھانی نہیں پڑتی تھی۔ حکومت وقت "جو حکم میرے آقا” کا لبوں پر ورد کرتے پہنچ جاتی، بظاہر ایم کیو ایم کے مطالبات مان لیئے جاتے، لیکن پس پردہ "اصل قوتوں” کے باتیں مان لی جاتیں۔
ایک دو دن یا ایک ہفتے کے بعد الطاف بھائی کے حکم سے سب ٹھیک ہوجاتا۔
اس حوالے سے الطاف بھائی اسٹبلشمنٹ کیلئے انتہائی مناسب اور سستا سودا تھا۔ ان کے مطالبے کوئی زیادہ نہیں ہوتے تھے۔
گذشتہ پینتیس سالوں میں کبھی کسی نے سنا کہ الطاف بھائی ، ایم کیو ایم[پاکستان اور لندن تو محض نام ہیں دراصل ایم کیو ایم آج بھی ایک ہی ہے] کبھی اس بنیاد پر سیاسی یا غیر سیاسی حکومت سے علحیدہ ہوئی ، یا شہر بند کرایا، ہڑتالیں کیں کہ چاہے کتنا ہی بجٹ خرچ ہو لیکن :
۱-شہر کو بہتر ٹرانسپورٹ سسٹم دیں؟ میٹرو ٹرین دیں۔
۲- صفائی کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ ڈرینج صدیوں پرانا ہے اسے از سر نو تعمیر کریں۔
۳-نالوں پر قبضے ہو رہے ہیں، شہر ڈوب رہا ہے، پہلے اس کا بندو بست کریں۔
۴-جدید اسپتال بنائیں، صحت کا بجٹ بڑھائیں اور اعلاج مفت کریں
۵-شہر پر آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے، غیر قانونی تارکین وطن کا بندو بست کریں
۶-بڑے تعلیمی ادارے بنائیں، وغیرہ وغیرہ
ایم کیو ایم کے ایسے مہنگے مطالبات نہیں ہوتے تھے۔ اگر وہ وقتی طور پر ایسے مطالبات رکھتے بھی تھے تو محض دبائو بڑھانے کیلئے، بس۔
ایسے بڑے منصوبے مانگ کر حکومتوں پر "مالی بوجھ” ڈالنا، الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کی پالیسی ہی نہیں تھی۔
ایم کیو ایم کی پوری تاریخ میں، مصطفیٰ کمال کے وقت میں کچھ فلائی اوورز بنے، جس سے شہریوں کی ٹریفک مسائل سے کچھ گلو خلاصی ہوئی۔ لیکن اس کیلئے بھی ایک یگانی شرط تھی کہ کراچی اور حیدرآباد میں خرچ ہونے والی رقم کا آڈٹ نہیں ہوگا۔وہ آج تک نہیں ہوا۔ نیب سب کو پرانے کیسوں میں اٹھا رہی ہے لیکن ایم کیو ایم "عتاب” میں ہونے کے باوجود مجال ہے کہ نیب یا ایف آئی اے یہاں کا رخ بھی کرے، مقدمات ہیں چلتے رہتے ہیں، یہ کونسا مسئلہ ہے؟
الطاف بھائی یا ایم کیو ایم تو ایسا کچھ بوجھ بھی نہیں تھے، وہ فقط کراچی شہر پر "بادشاہت” مانگتے تھے۔ جہاں قانون ، آئین ان کی جوتی کے نوک پر ہو۔ ان کی زبان سے جوحرف نکلے وہی سب کچھ مانا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ جو چاہیں کریں، جس کو چاہے قتل کیا جائے، فیکٹری تو کیا، جو چاہیں جلا دیا جائے، بس کراچی گبرسنگھ کے ہاتھ میں رہے۔ شہری جیئیں لیکن سسک سسک کر، بھتہ دے کر۔ اگر شام کوگھر سلامتی سے واپس پہنچ جائیں تو ایم کیو ایم اور الطاف بھائی کا شکر ادا کرتے رہیں۔ شہر تاراج ہوجائے کوئی مسئلہ نہیں۔ مہاجر کے نام پر اردو بولنے والوں کی تعلیم اس طرح تباہ جائے جس طرح سندھی قومپرستی کی نام پرتعلیم تباہ کی گئی۔
یہ کونسا مہنگا سودا تھا؟ الطاف بھائی اور ایم کیو ایم نے پینتیس سال تک، "اصل قوتوں” کیلئے ملک میں "سکون "قائم کیئے رکھا۔ نسل پرست سیاست چاہے وہ مہاجر نسل پرستی کی شکل میں ہو یا سندھی قومپرستی کی شکل میں ہو، ان کو اس لیئے پروان چڑاھایا گیا، ان کے ناز اٹھائے گئے تاکہ جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کو نکیل ڈالی جائے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود آج جو بھی جمہوری ادارے ملک میں موجود ہیں، ان کو بننے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اب ایم کیو ایم اور الطاف بھائی، نسل پرست سیاست کے بغیر کراچی شہر تو” اصل قوتوں” کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، یا تحریک انصاف شہر میں "آزادانہ سیاست” کر رہے ہیں۔ جو ایم کیو ایم کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ یہ شہر تو جمہوری، سیاسی اور ترقی پسند جمہوریت کی بات کرنے والوں کے ہاتھ لگ جائیگا۔
اصل قوتوں نے شہر کو مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی، وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتے لیکن، کم بخت ایف اے ٹی ایف سر پر بیٹھا ہے۔ وہ ایک حد سے زیادہ ان کو آگے نہیں لا سکتے۔
ایم کیو ایم پاکستان کا شہر کے مسائل کا چورن نہ بک سکا تو، ایک بار پھراس مسئلے کا حل نادیدہ قوتوں نے یہ نکالا کہ گذشتہ دو سال سے بڑی خاموشی سے کراچی میں نسل پرست سیاست کو نئے اور جدہد انداز میں کام جاری رکھا۔ پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم سمیت مہاجر نسل پرست سیاست کے لوگ نوجوانوں میں واٹس اپس گروپس، وڈیو کالز، گمراہ کن شارٹ ڈاکیومینٹریز کے ذریعے کراچی کے اردو بولنے والے نوجوانوں کو ایک بار پھر مہاجر نسل پرست سیاست کی طرف راغب کیا جاتا رہا۔
اب اس مقصد کیلئے ہمہ جہتی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ اس کے تحت مہاجر نسل پرست سیاست کو ایک نئے روپ میں لانچ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ شخص واسع جلیل جس نے نیویارک میں کراچی کو پاکستان سے علحیدہ کرنے کیلئے متحرک رہے اور ایک تنظیم بنائی اب اسی پاکستان توڑنے والی تنظیم کو ساتھ لیکر پاکستان واپس آرہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے متحرک سیاسی رہنما جو ملک سے فرار ہو گئے تھے وہ واپس براہ راست اسلام آباد لینڈ کر رہے ہیں۔
مہاجرنسل پرست گروپوں کا اتحاد تشکیل دے کر، کراچی کو ایک بار پھر ایک نئی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو کنٹرول میں رکھ کر پاکستان کی معاشی، سیاسی طور پر قبضے میں رکھا جائے۔ ملک میں اصل جمہوریت کو آگے بڑھنے نہ دیں۔
مہاجر نسل پرست سیاست کے نام پر کراچی کو ایک بار پھر تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو مہاجر نسل پرست سیاست، لاہور، ملتان بہاولپور اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں قبول نہیں لیکن سندھ میں یہ ان کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ سندھ کے سیکیولر اور جمہوری وفاقی سیاست رویے کا توڑ لایا جا سکے۔
اب سندھ کے دیگر علاقوں میں نام نہاد قومپرست سیاست، ڈاکو راج، بد امنی پھر سے سر اٹھائے گی اور کراچی میں مہاجر نسل پرست سیاست کے ذریعے بلدیاتی یا عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو روکنے کا بندوبست کیا جائیگا۔ تاکہ پاکستان میں جمہوری سیاست میں آنے والا ابھار ان کے وارے میں نہیں آتا۔
پالیسیاں بنانے والے ہوش کے ناخن لیں، اپنی پالیسیز اور پروگرامز کو لاگو کرنے کیلئے، مذہبی، فرقہ وارانہ اور کسی بھی نسلی سیاست کا سہارا لیکر اپنے ہی ملک کے شہروں اور عوام کو تباہ کیا جا سکتا ہے، کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہاں ان پالیسی بنانے والوں کو الطاف بھائی یا ایم کیو ایم کی یاد ضرور ستاتی ہوگی لیکن تجزیہ کریں کہ گذشتہ پینتیس سال کی اس پالیسی نے کراچی کے عوام کو کیا دیا؟ لیکن وہ ایسا تجزیہ کیوں کریں، انہوں نے کیا ہی اس لیئے تھا۔