قاضی آصف

مسلم لیگ "ن” کے صدر میاں شہباز شریف بدھ کے روز زندگی میں پہلی بارپارٹی وفد کے ہمراہ بلاول ہاوس کراچی پہنچے۔

بلاول ہاوس کے میڈیا سیل کی جانب سے میڈیا کو اطلاع دی گئی کہ چار بجے ایک مشترکہ میڈیا بریفنگ ہوگی۔ رپورٹرز، کیمرامین وقت سے پہلے پہنچ کر بریفنگ ہال میں اپنی سیٹنگ میں مصروف ہو گئے۔ جو سب کا یہ خیال تھا کہ بریفنگ میں شہباز شریف خود شامل ہوں گے۔ اور کچھ باتیں بھی ایسی ہی سننے میں آ رہی تھیں۔ سب رپورٹرز اس کوشش میں تھے کی پہلا سوال ان کا ہو اور وہ سوال ایک ہی تھا۔

ایک ہی سوال سب پوچھنے کیلئے بیتاب تھے۔ رپورٹرز سے بھرے ہال میں رپورٹرز ایک دوسرے سے مذاق بھی کر رہے تھے کہہ رہے تھے کہ پہلا سوال مجھے پوچھنے دو۔ ایک ہی سوال کا ہاتھ سب نے پکڑا ہوا تھا۔
یہ پہلی بار تھا کہ پیپلزپارٹی کے حریف جماعت مسلم لیگ نون کے صدر وہ بھی شہباز شریف خود بلاول ہاوس تشریف لائے تھے۔ اور جو ان کے ساتھ وفد میں شامل تھے، احسن اقبال، مریم اورنگزیب وغیرہ، وہ بھی پہلی بار بلاول ہاوس پہنچے تھے۔ جس راستے پر کمیرے لگائے گئے تھے کہ شہباز شریف کے گاڑیوں کا کافلہ یہیں سے آئیگا، اس کے شاٹس لیئے جائیں گے۔ لیکن ان کی گاڑیوں کا کافلہ دوسرے راستے سے بلاول ہاوس میں داخل ہو چکا تھا اور ان کو خوش آمدید کہنے کیلئے خود آصف علی زرداری باہر دروازے پر کھڑے تھے۔

جب یہ تصویریں اور ویڈیو سامنے آئے تو سب کے ذہنوں میں شہباز شریف کی لاہور میں کی ہوئی دھواندار تقریر گھوم رہی تھی جب آصف علی زرداری صدر تھے اور شہباز شریف وزیراعلیِ پنجاب، جب انہوں نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا تھا کہ آصف علی زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کے روڈوں پر گھسیٹا جائِیگا۔
وقت کتنا بادشاھ ہے، جس شخص کیلئے شہباز شریف نے یہ اور دیگر سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ وہ شخص اپنے گھر کے دروازے پر شہباز شریف کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھا۔ وہ اپنے بیٹے اور پارٹی چئرمین بلاول بھٹو کو بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ شہباز شریف کا استقبال کرے، لیکن آصف زرداری نے مناسب سمجھا کہ یہ کام وہ خود کرے۔

اب صحافی بریفنگ ہال میں بے صبری سے شہباز شریف کا انتظار کر رہے تھے۔ کہ ان سے سوال پوچھا جائے کہ شہباز شریف صاحب، آپ آصف زرداری کو بلاول ہاوس میں گھسیٹنے کیلئے آئے ہیں ؟ آصف زرداری کو گھسیٹنے والی آپ کی بات کہاں تک پہنچی۔ جب بریفنگ کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنما ہال میں پہنچنا شروع ہوئے۔ تو سب رپورٹرز کی نظریں شہباز شریف کے انتظار میں تھیں لیکن یہ کیا ہوا؟ شاید حالات کو بھانپتے ہوئے اس موقع پر شہباز شریف نے کو میڈیا کے سامنے آنے سے اجتناب کروایا گیا۔ کہ اس پر سوالوں کو طوفان امنڈ آئیگا۔ شہباز شریف خود نہیں آئے اور تمام صحافیوں کا ایک ہی سوال پوچھنے سے رہ گئے۔ سب ایک سوال پوچھنا چاہتے تھے، اور سب ہی یہ سوال پوچھنے سے رہ گئے۔
بہرحال یہ جمہوری سیاست کی اچھی روایت ہے کہ سب چیزوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کی جاتی ہے، اور یہی ملک کی پارلیامینٹ کی مضبوطی کیلئے اہم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here