رپورٹ: قاضی آصف

اس درد، لاچارگی، قسم پرسی کا ذکر کہاں سے شروع کریں؟؟ بس دیکھتے جائیں، لکھیں، تو الفاظ کے آنسوں ٹپک پڑیں، جو دیکھیں تو آنکھوں سے آنسوں نکل آئیں۔ طوفانی بارش کی بربادی ہر جگھ ایک جیسی نہیں ہوتی، ایک جگہ گاڑی ڈوب جانے کو تباہی کہا جاتا ہے، یہاں احساس ہی ڈوب جائے اور تنکہ نہ رہے، اس کو فقط بھگتتے ہیں، آہ بھی نہیں بھرتے، اس ویرانی میں سننے والا کون ہے؟ کون ہے جو ان بچوں کے اس حال کو دیکھے مدد کرے۔

سب تو کہیں اور سے بارش کا پانی نکالنے میں مصروف ہیں، یہاں زندگیوں کو پانی سے بچا کر لے جائیں تو کہاں۔ کراچی، بدین، سامارو، میرپورخاص، ٹھٹہ، عمر کوٹ، تھرپارکر، لاڑکانہ۔ کہیں بجلی گری، زندگیاں بھسم کر گئی۔ کہیں پانی پوری کی پوری آبادیاں نگل گیا۔ میڈیا کی نظر پڑے تو کیوں، جو برباد ہوئے ان کے گھروں میں ٹی وی بھی تو نہیں، جس سے ان کی ریٹنگ آئے۔ شہر تو نہیں جہاں انتظامیہ پہنچ پائے۔

یہ لوگ ہیں، فطرت ہے، اور اللہ کا آسرا، تار تار زندگی کو دیکھنا ہے تو ان کو دیکھو یہ سندھ بھر میں بارش کی تباہی کے منظر ہیں۔ ان لوگوں کے دکھوں سے اپنے دکھوں کا موازنہ کر سکتے ہو تو کرو،،،ہمیں فقط کوئی یہ سمجھائے رایاست اگر ان بچوں کی بھی ماں ہے تو وہ ماں کہاں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here