قاضی آصف

اس وقت میڈیا میں کراچی کے مسائل کے حوالے سے ہونے والی اجلاس کا بڑا چرچا ہے۔ جس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اورپی ٹی آئی پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں وفاقی حکومت کے نمائندے بھی شامل ہونگے۔ کراچی کے معاملے پرحکومت سندھ نے سرنڈر کرلیا ہے۔ اسی حوالے سے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے کامران خان کو اطلاع دے کر وہ بات کرائی جس کا اجلاس میں کوئی فیصلہ ہی نہیں ہوا۔
اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو ہوا کیا ہے؟ یہ اس وقت بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ہم نے کوشش کی، اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت سندھ کے کچھ وزراء شاید وضاحتی پریس کانفرنس بھی کریں ۔
اجلاس کے بعد تمام میڈیا نے یہ خبریں دیں کہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس بات کی تصدیق سندھ کے وزیراطلاعات ناصر شاھ صاحب نے بھی کی کہ سب مل کر کراچی کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔
لیکن جب سوشل اور براڈ کاسٹ میڈیا پر باتیں بڑھ گئیں تو سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کو ایک ٹی وی چینل پر آکر وضاحت کرنا پڑی کہ سب کام حکومت سندھ ہی کرے گی جس کا آئینی اختیار ہے۔ آئین سے باہر کوئی بات نہیں ہوگی۔ جو کام ہوگا حکومت سندھ کرے گی۔ اگر وفاقی حکومت کوئی کام کرے گی تو حکومت سندھ سے مشاورت کرے گی۔
لیکن ذرائع کے مطابق اصل بات تو مرتضیٰ وہاب نے بھی نہیں کی، یہ ان کی مجبوری ہے کہ اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ میڈیا پر اسی طرح نہیں بول سکتا۔ سندھ کے وزیراطلاعات ناصر شاہ نے بھی اجلاس کی اصل بات کرنے کے بجائے فقط یہ کہتے رہے کہ سب مل کر صوبے کی بہتری کیلئے کام کریں گے۔
ہمارے ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے، کہ کراچی کے تمام اڑتیس نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے کی نگرانی میں ہوگا اور وہ کام ایف ڈبلیو او کرے گی اور تجاوزات بھی ہٹائی جائیں گی۔
یہ بتایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے خاص طور پر وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ این ڈی ایم اے یا ایف ڈبلیو اے مشکل میں آ گئے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر عمل کرائیں، تو کس طرح؟
اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق، اجلاس میں کوئی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی ہے۔ اجلاس میں فقط دو تین معاملات پر بات چیت ہوئی ہے۔
کراچی کے نالوں پر تجاوزات کو کس طرح ہٹایا جائے، اور کون ہٹائے ؟ کیونکہ اس سے کم از کم دو ڈھائی لاکھ لوگ متاثر ہوں گے۔ اور اگر یہ کام ملک کے سیکورٹی ادارے کریں گے تو ان کی ساکھ متاثر ہوگی، اس صورتحال کو کچھ قوتیں استعمال بھی کر سکتیں ہیں۔ لہٰذیٰ تجاوزات حکومت سندھ ہی ہٹائے سیکورٹی ادارے مدد کریں گے۔
دوسری بات کہ تمام نالوں پرجو رقم خرچ ہوگی وہ وفاقی حکومت دے کیونکہ این ڈی ایم اے کی نگرانی میں کام ہو رہا ہے، تیسری یہ کی ایف ڈبلیو او، کراچی کے نالے تو صاف کرے گا لیکن اس سے قبل پانی کے فور منصوبے کو مکمل کرے کیونکہ اس کہ وجہ سے صوبائی حکومت کو بڑی مشکلات سے گذرنا پڑ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پربچ بچائوسے عمل کس طرح کرایا جائے اور سیکورٹی اداروں کو اس عمل سے الگ کیسے رکھا جائے، یہ اصل مسئلہ ہے اگر وہ تجاوزات ہٹائیں گے تو شہریوں میں ان کے خلاف رائے قائم ہو سکتی ہے۔
جس طرح پی ٹی آئی نے اس اجلاس سے سیاسی پتہ کھیلا کہ رائے عامہ اور صورتحال صوبائی حکومت کے گلے میں ڈال دی، یہ ان کی سیاسی حکمت عملی تھی لیکن صوبائی حکومت اصل صورتحال یا اجلاس کی اصل بات سامنے نہیں لانا چاہتی تھی، یا نہیں لا سکتی۔
ہمارے ذرائع کے مطابق اجلاس میں اہم اشوز پر مشاورت بہت اچھے ماحول میں ہوئی اور یہ درست عمل ہے کہ سیکورٹی اداروں کو شہر کے ایسے مسائل میں نہ الجھایا جائے جس سے نقصان ہو۔ اس مسئلے کا حل کس طرح نکالا جا سکتا ہے، اس وقت حکومت سندھ اس صورتحال میں پھنس گئی ہے کہ اگر وہ اتنے بڑے پیمانے پرتجاوزات ہٹائے گی تو اگلے بلدیاتی انتخابات میں انہیں کراچی میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس لیئے تجاوازت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔
یہ میں لکھ ہی رہا تھا کہ صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاھ نے اپنا بیان جاری کیا ہے۔
” صوبائی وزیر بلدیات و اطلاعات سید ناصر شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کے مابین ہونے والی ملاقات میں ترقیاتی کاموں اوراس سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور ان کے حل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک ترقیاتی کاموں پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کا تعلق ہے ، اجلاس میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ناصر شاہ نے بتایا کہ شہر کراچی میں ، صوبائی ایجنسیوں کے علاوہ وفاقی حکومت کی مختلف ایجنسیاں جیسے کنٹونمنٹ ، ڈی ایچ اے ، کے پی ٹی کام کر رہی ہیں۔ لہٰذا جب کوئی اسکیم یا پروجیکٹ شروع ہوتا ہے تو مختلف رکاوٹیں سامنے آتی ہیں ، اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے کابینہ کے اراکین کے ساتھ وفاقی وزیر اور ان کی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی تاکہ راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے کار وضع کیے جاسکیں ۔واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کے مابین شہر میں ترقیاتی کاموں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک اجلاس بلایا تھا۔ اجلاس میں وزیر بلدیات سید ناصر شاہ ، وزیر محنت سعید غنی ، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل افضل ، میئر کراچی وسیم اختر و دیگر نے شرکت کی۔
ناصر شاہ نے بتایا کہ سیلابی نالوں سے کیچڑ نکالنے ، لینڈ فل سائٹس پر کیچڑ کو ڈمپ کرنا ، نالوں سے تجاوزات کا خاتمہ ، اسکیموں کی تکمیل جیسے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر بلدیات نے شہر میں ترقیاتی کاموں کے لئے کسی بھی کمیٹی کی تشکیل کی واضح طور پر تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ شہر کی ترقی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم پوری کوشش کر رہے ہیں”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here