قاضی آصف
شہید ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دینے والی سپریم کورٹ کی بینچ کے ایک رکن جسٹس نسیم شاہ نے اقرار کیا تھا کہ غلط فیصلہ تھا، بھٹو کو سزائے موت دینا بنتی نہیں تھی۔ اس فیصلے کی حمایت انہوں نے محض اس لیئے کی تھی کہ انہیں دھمکایا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی تو انہیں مستقل جج نہیں بنایا جائیگا۔ ججز صاحبان اتنی سی بات پر عوامی لیڈروں کی زندگی سے کھیل جاتے ہیں؟ کون اعتبار کرے؟ اب ایک صحافی کی طرف سے اور انکشاف آیا ہے۔
دہائیوں کے بعد نامور صحافی محمد ضیاء الدین نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھانڈا پھوڑا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ہٹانے کیلئے صدر اسحاق خان کے پاس کرپشن کے ثبوت کے طور پر فقط ان کی اور صھبائی کی وہ اسٹوریز تھیں جو انہوں نے ڈان میں بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف چھاپیں تھیں۔ سپریم کورٹ میں جب حکومت کی برطرفی کے خلاف مقدمہ گیا تو انہوں نے بھی اپنے فیصلے میں صدارتی حکم کو جائز قراردیا اور ثبوت کے طور پر ہماری ڈان میں چھپیی ہوئی اسٹوریز کو قبول کرلیا۔ نہ کرپشن کا اصل ثبوت عدالت میں پیش کیئے گئے اور نہ ہی سپریم کورٹ کی طرف سے مانگے گئے۔
ایک اورٹویٹ میں محمد ضیاء الدین کہتے ہیں کہ اسی طرح غلام اسحاق خان نے جب نواز شریف کی حکومت ہٹائی تو غلام اسحاق خان کے پاس اس کا ثبوت بھی میری اور صھبائی کی ڈان میں نواز شریف حکومت کے خلاف چھپی ہوئی اسٹوریز تھیں۔ لیکن جب کیس عدالت میں گیا تو سپریم کورٹ نے اخبار میں چھپی ہوئی ہماری اسٹوریز کو ثبوت کے طور پر ماننے سے انکار کردیا اور نواز شریف کی حکومت بحال کردی۔
جب حفیظ پیرزادہ نے مشہور این آر او کیس کی پیروی کرتے بتداء ہی ڈان میں چھپی میری اسٹوری "ڈیل ہو گئی” سے کی جو میں نے لندن سے فائل کی تھی۔ تو سپریم کورٹ نے کہا فقط کسی اخبار میں چھپی ہوئی خبر ہی ثبوت کیلئے کافی نہیں۔
یہاں عدلیہ کا معاندانہ اور دوہرا معیار واضح ہوجاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک کے صدر کے پاس حکومت ہٹانے کیلئے فقط ایک اخبار کے تراشوں کا ثبوت کافی ہے اور اس کو سپریم کورٹ بھی منوعن مان لیتی بھی لیتی ہے جبکہ بلکل اسی طرح کے دوسرے مقدمے وہی سپریم کورٹ صدر کے وہی اخبارے تراشے ثبوت کے طور پرماننے سے انکار کردیتی ہے۔ اور نواز شریف کی حکومت بحال ہوجاتی ہے۔ یہ اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا حال ہے۔ تو ابھی تک اسی نوعیت کے ہونے والے دوسرے فیصلوں اور نیب کی سیاستدان مان مہم کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کا دوہرا معیار بہت کچھ ثابت کرتا ہے۔ تو پھر سیاستدانوں کو یہ الزام کے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیوں جھوٹا ہے؟
محمد ضیاء الدین کے ٹویٹس سے بہت سے کئی سوال اٹھتے ہیں اور بہت سی باتیں واضح بھی ہوجاتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی حکومت اور وزیراعظم کے خلاف میڈیا اور صحافیوں کے ذریعے خبریں فیڈ کرکے میدان تیار کیا جاتا ہے۔ حالانک یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں لیکن یوں ہی کہہ دینا الگ بات ہے اور ایک ذمہ دار شخص کی بات کرنا الگ بات ہے۔ ضیاء صاحب نے جو باتیں کیں ہیں اور اب بھی جو ماحول میڈیا میں چل رہا ہے ،کہ کچھ ٹی وی چینلز اور اینکر سیاستدانوں کے خلاف جس طرح اچھل کود رہے ہیں، اس سے بات واضح ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔
اس طرح تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کراچی کے کچھ صنعتکاروں کی جانب سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ اور تواتر کے ساتھ کراچی کو مرکز کے حوالے کرنے کی باتیں بھی محض باتیں نہیں بلکہ کوئی منصوبہ ہے جس پر عمل کرنے کی ابتداء ہے جیسے جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے نام پر صوبوں کو بے اثر کرکے رکھ دیا تھا۔ کراچی میں نالوں کی صفائی بارش ہوتے وقت پانی جمع ہوجانے والی باتوں کو میڈیا کے ذریعے بلاوجہ طول دلوانا۔ حالانکہ بارش میں ایسے ہی حالات لاہور کے بھی ہیں، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور میڈیا دکھا رہا ہے کہ لاہور کے روڈوں پر گلاب کے پانی کا اسپرے کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کا رویا بھی ایسے سیاستدان جو "ان” کے منظور نظر نہیں، کے ساتھ مختلف ہے۔
یہ باتیں ایک صحافی نے بتادیں کہ انہوں نے کیا، کیا تھا اور عدالتوں اور ملک کے صدر نے کیا، کیا تھا۔ شہید بینظیربھٹو کے ساتھ دشمنی والا رویہ جبکہ دوسرے وزیراعظم پر اتنی مہربانیاں۔ اس مطلب بینظیر بھٹو جو عدالتوں کو کینگرو کورٹس کہتی تھیں وہ درست ہی تھا۔ اور وقت ہر چیز آہستہ آہستہ ثابت کرتا جا رہا ہے۔
کیوں نہ ابھی تک عدلیہ کی طرف سے کیئے جانے والے فیصلوں پر ایک کمیشن بٹھایا جائے۔ اور عدلیہ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ نے کس وقت کیا، کس طرح کے فیصلے کئے تھے۔ مقدس گائے کی طرح سب کچھ معاف کیسے ہو سکتا ہے؟
وہ وقت جب محترمہ بینظیر بھٹو ایک ہی دن میں مختلف عدالتوں کے درمیاں بھاگتی پھرتی تھیں۔ مختلف شہروں کی عدالتوں میں ایک ہی دن میں شنوائیاں رکھی جاتی تھیں۔ وہ سب انصاف کیلئے نہیں، کسی کو خوش کرنے کیلئے ہوتا تھا۔ اور جب عدالتیں کسی کی مرضی اور خوش کرنے کیلئے فیصلے کریں تو کیا وہ عدالتیں کہلانے کے لائق ہیں؟