اسٹاف رپورٹر
اسلام آباد/کراچی : ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستانی اتھارٹیز کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر عمل کرنا چاہئے اور حکومت کے ناقدین کو تحویل میں رکھنے کے لئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو استعمال کرنا اب بند کردینا چاہئے۔ حکام کو چاہئے کہ وہ غیر قانونی گرفتاریوں اور دیگر زیادتیوں میں ملوث نیب افسران کے خلاف تحقیقات کریں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 20 جولائی 2020 کو 87 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دو سیاستدان بھائیوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے مقدمے میں فیئر ٹرائیل کے حق اور ان کی گرفتاریوں کے دوران طریقہ کار کی خلاف ورزی کی ہے، جنہیں نیب نے ٹھوس وجوہات کے بغیر ہی 15 مہینوں تک حراست میں رکھا تھا۔ عدالت نے دونوں شخصیات کی ضمانت منظور کرتے ہوئے نیب کو قانون، منصفانہ طریقہ کار، برابری اور موزونیت سے روگردانی کرنے پر تنقید کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا کہ یہ مقدمہ بنیادی حقوق کو پامال کرنے [اور] آزادی کوغیرقانونی طریقے سے چھیننے کی ایک بڑی مثال ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے ایشیاء بریڈ ایڈمس نے کا کہنا تھا کہ پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ نیب کے خلاف غیر قانونی برتاوَ پر تازہ ترین فرد جرم ہے۔ پاکستانی حکام کو مخالفین کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لئے آمرانہ دور میں بنائے گئے ادارے کو استعمال کرنا چھوڑ دینا چاہئے، جس اختیارات انتھائی سخت اور صوابدید پر مبنی اختیارات پر مشتمل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کا کہنا ہحے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو کرپشن کے خاتمے کے لیئے بنائے گئے ادارے کو خودمختار بنانے کے لئے فوری اصلاحات کرنی چاہئیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومتی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے نیب کو بطور آلہ استعمال کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے یوروپی کمیشن کی جانب سے فروری میں جاری کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں نیب کو متعصب ہونے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد سے حکمران جماعت کے وزراء اور رہنماوَں میں سے بہت ہی کم کے معاملات کو اٹھایا گیا ہے، جسے نیب کی جانبداری کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔
ملک میں وکلاء کی سرکردہ نمائندہ تنظیموں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل، نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور نیب کو سیاسی مخالفین کو بازو موڑنے کا ایک آلہ قرار دیا۔ مذکورہ بالا دونوں تنظیموں نے فروری کے دوران اپوزیشن کے ایک رہنما بلاول بھٹو کو جاری کردہ سمن کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ وہ اس عمل کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ مارچ میں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ نیب اپنے گرفتاری کے اختیارات میں من مانی کر رہا ہے۔
قومی احتساب بیورو 1999 میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے جانب سے نافذ کردہ ایک آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔ مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے نیب کو گرفتاری، تفتیش اور قانونی چارہ جوئی کے بلا روک ٹوک اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔ احتساب آرڈیننس کے تحت گرفتار افراد کو حکام بغیر کسی الزام کے 90 دن تک نظربند کرسکتے ہیں۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب کی گرفتاری کے اختیارات میں من مانی کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری کا جواز گھڑنا ہے… گرفتار کرنے کے اختیارات کو جبر اور ہراساں کرنے کے لیِے آلے کے طور پر مقرر نہیں کیا جانا چاہئے۔
قومی احتساب بیورو نے 12 مارچ کو پاکستان میں سب سے بڑے میڈیا گروپ، جنگ گروپ، کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن کو 34 سالہ پرانے جائیداد کے لین دین سے متعلق الزامات پر لاہور میں گرفتار کرلیا اور تب سے وہ ایجنسی کی تحویل میں رہا ہے۔ ہراساں کرنے کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ، نیب عدالت نے سابق صدر و اپوزیشن لیڈر آصف علی زرداری کو ذاتی حیثیت میں اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے لئے پیش ہونے کے لئے طلب کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی خرابی صحت اور کوویڈ-19 کی وجہ سے ویڈیو لنک کے ذریعہ بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ زرداری اس سے قبل بھی 11 سال جیل میں گزار چکے ہیں، جس میں سے آدھے سے زیادہ عرصہ بغیر کسی جرم کے نیب کی تحویل میں گذرا۔
دسمبر 2018 میں، سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر میاں جاوید احمد نیب کی تحویل میں ہی چل بسے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران، پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر تھے، جنہیں نیب نے یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا، جنہوں نے نیب کے حراستی مراکز کو ٹارچر سیل قرار دیا تھا۔
ایڈمز نے کہا کہ پاکستانی حکام کو حکومت کی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے چھیڑچھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو نیب آرڈیننس میں ترمیم یا اس کو منسوخ کرنا چاہئے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ احتساب کی آڑ میں فیئر ٹرائیل، جائز طریقہ کار اور شفافیت کے اصول کسی صورت متاثر نہ ہوں۔