آج یکم جولائی کا دن ہے، ۱۹۷۰ء میں اسی دن، ون یونٹ ختم کرنے کا اعلان ہوا اور صوبوں کی حیثیت بحال کردی گئی۔ ۲۰۱۱ء کو اس دن کو ہر سال یوم صوبائی خودمختیاری کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن آج کے دن وفاقی حکومت سمیت کسی صوبے میں کوئی تقریب ہوئی نا کسی سیاسی رہنما نے کوئی خصوصی پیغام نشر کیا۔ سابق صدر، جنرل ایوب خان اپنی سر گذشت، فرینڈس، ناٹ ماسٹرس میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ، وہ لندن کی ایک ہوٹل میں قیام کے دوران ایک رات ملک کے حالات کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ‘ون یونٹ’ اسکیم ذہن میں آئی۔ کہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملاکر ایک صوبہ بنا دیا جائے، پ ستان دو صوبوں، مشرقی و مغربی پاکستان پر مشتمل ہو۔ بادشاہت کا نظام اور کس کو کہتے ہیں، مطق العنانیت کسی اور چیز کا نام ہے؟ ون یونٹ فقط ایک شخص کے ذہن کی سوچ تھی۔ جو ۱۹۴۰ ء کی قرارداد کے خلاف تھی۔ کیونکہ ایک جنرل صاحب کے ذہن میں ایک خیال آگیا، تو اس پر مزید غور کی ضرورت ہیں باقی نہیں رہی۔ نہ کوئی بحث، نہ اس کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر سوچ بچار۔
اسکیم کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے ملک کو زیر زبر کردیا گیا۔ اس اسکیم کی حمایت میں جس نے پہلی قرارداد منظور کی وہ بنگلادیش اسیمبلی تھی، جس کے بعد دھونس کے ذریعے اس وقت سرحد اسیمبلی، پنجاب اوربلوچستان اسیمبلی، اس کی مزاحمت موجودہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ہوئی لیکن سب سے زیادہ مخالفت صوبہ سندھ سے ہوئی۔ اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ، محمد ایوب کھوڑو تھے۔ پیر علی محمد راشدی، اپنی کتاب ون یونٹ کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ، سندھ کسی طرح بھی، اس منصوبے پر عمل کیلئے تیار نہیں تھا۔ ایوب خان کا سب سے زیادہ دبائو سندھ پر تھا۔ جہاں سے زیادہ مزاحمت ہو رہی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہیں امید تھی کہ بنگلادیش اور سرحد اسیمبلی ون یونٹ کی حمایت میں قرارداد پاس نہیں کریں گی۔ لیکن بہت افسوس ہوا کہ دونوں اسیمبلیوں نے ون یونٹ کی حمایت میں قراردادیں پاس کردیں، بعد میں پنجاب اور بلوچستان نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب سندھ کے پاس کیا راستہ رہ گیا تھا؟ لیکن پھر بھی سندھ نے مرکز کے ساتھ معاہدے کے بغیر ون یونٹ کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ حکمران جماعت، مسلم لیگ سندھ نے وفاق سے ۲۶ نکات پر مشتمل ایک معاہدہ کیا تاکہ صوبے کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ جس کے باوجود ایوب کھوڑو کو دیگر ارکان کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ قرارداد پاس ہو گئی۔ ایوب کھوڑو، پیرعلی محمد راشدی اور دیگر افراد کو غدار سندھ کے لقب سے نوازا گیا۔ باقی عمر انہوں نے اس ضمن میں شدید تنقید کا سامنا کرتے گذاری۔
ون یونٹ اسکیم کے تحت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی تاریخی حیثیت ختم کردی گئی۔خطوط پر پتہ لکھتے وقت، سندھ، پنجاب، سرحد، یا بلوچستان لکھنے کی ممانعت تھی۔ سندھ میں تعلیمی اداروں میں سندھی زبان پر پابندی لگادی گئی۔ ون یونٹ اسکیم نے ملک کی سلامتی کیلئے بہت بڑے سوال پیدا کردیئے ۔اپنی خواہش ،ضد اور انا کی تسکین کیلئے انہوں نے ملک کو توڑ ڈالا۔ ان پر کوئی حرف بھی نہیں۔ سابق جنرلوں کے بھی عجیب قصے ہیں، ایک نے مرکزیت قائم رکھنے کیلئے صوبوں کے وجود کو ہیں ختم کردیا گیا۔ لیکن پرویز مشرف آیا تو انہوں نے یہی کام اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے پرفریب نعرے میں کیا۔صوبوں کے اختیارات عملی طور پر ختم کردیئے، اضلاع کو براہ راست مرکز سے چلایا جانے لگا۔ صوبے محض پوسٹ آفیس بن کر رہ گئے۔ جب تمام اسیمبلیوں نے ون یونٹ کے حق میں قراردایں پاس کردیں، اور ون یونٹ لاگو ہوگیا تو مسلم لیگ کو ختم کرکے کنوینشن مسلم لیگ ، ایک نئی پارٹی وجود میں لائی گئی جو جنرل ایوب خان کی مکمل حمایتی تھی۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ جس مسلم لیگ نے صوبوں سے معاہدے کئے تھے، وہ ہی ختم ہوگئی تو نئی وجود میں آنے والی پارٹی، اس معاہدے پر عمل درآمد کی پابند نہیں رہی۔
پیرعلی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ جب سندھ سے ہونے والے معاہدے سے رو گردانی ہونے لگی تو، معاہدے کی کاپی لیکر راشدی صاحب اور ایوب کھوڑو ، آئی آئی چندریگر کے پاس گئے۔ انہوں نے معاہدہ دیکھا، سوال کیا، کہ پاکستان میں شامل ہوتے وقت آپ نے کوئی معاہدہ کیا تھا؟ اس کا جواب ‘نا’ میں ہی تھا۔ چندریگرصاحب نے ون یونٹ معاہدے کی فائل ٹیبل پر پٹختے ہوئے کہا کہ، اگر پاکستان میں بغیر کسی معاہدے کے شامل ہوئے، تو اب کیا لینے آئے ہو؟ کچھ نہیں ہو سکتا۔ ون یونٹ کی اسکیم کی ناکامی کی انتہا یہ تھی کہ ملک ٹوٹ گیا۔اب بھی ارباب اختیار کو جو بھی "خیال ” آئے، اس کو پورا کرکے گذرنے کی رسم ملک کیلئے بہتر نہیں۔ آج کے دن ملک بھر اور خاص طور پر سندھ میں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے اور قربانیاں دینے والوں کو سلام۔