from-bhutto-to-khan

قاضی آصف

چوبیس مارچ ۱۹۶۹ء کو ذوالفقار علی بھٹو اپنی خالہ کے انتقال پر ان کے جنازے میں شرکت کیلئے لاڑکانہ جا رہے تھے کہ راستے سے ہی ان کے ہوائی جہاز کا رخ خصوصی ہدایات پر راولپنڈی کی طرف موڑ دیا گیا۔ ایئرپورٹ سے ہی ان کو جنرل یحیٰ خان کے پاس پہنچایا گیا۔ جہاں پر یحیٰ خان نے بھٹو سےکہا کہ ایوب خان اپنے خلاف چلنے والی تحریک کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے، وہ ایوب خان سے اقتدار لینے کی تیاری کر رہے ہیں، ان کی رائے اس حوالے سے کیا ہے؟

بھٹو نے اس حوالے سے اپنی حمایت کیلئے تین شرائط رکھیں

ایک آزاد خارجہ پالیسی،۲۔ ون یونٹ کا خاتمہ اور مغربی پاکستان کےچاروں صوبوں کی بحالی،۳۔ ایک سال کے اندرعام انتخابات کا انعقاد۔ اس ملاقات میں یحیٰ خان نے بھٹو کی تینوں شرائط مان لیں۔ حالات بے قابو ہو چکے تھے، کوئی اور حل نہ دیکھتے ہوئے، جنرل ایوب خان نے ۲۵ مارچ کو اقتدار یحیٰ خان کے حوالے کردیا۔ بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیا۔

قبل از، ایوب خان کے خلاف متحدہ محاذ کی جانب سے جاری احتجاجی تحریک سے یحیٰ خان نے اپنے لیے ایک موقع کے طور پر فائدہ اٹھایا۔ مسئلے کے حل کیلئے ایوب خان نے اسلام آباد میں ایک گول میز کانفرنس بلائی۔ جس میں شرکت کیلئے شیخ مجیب الرحمان کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جو ۱۹۶۹ء میں اگرتلہ کیس میں جیل میں تھے۔ صدر ایوب خان اور یوسف ہارون نے چک لالہ ایئربیس پر ان کا استقبال کیا اور براہ راست جی ایچ کیو پہنچایا جہاں ان کی ملاقات یحیٰ خان سے کرائی گئی۔ ایوب خان چاہ رہے تھے کہ یحیٰ خان شیخ مجیب کو یہ باور کرائے کہ فوج کی حمایت ایوب خان کے ساتھ ہے تاکہ شیخ مجیب تحریک میں کچھ نرمی لائے لیکن اس ملاقات میں یحیٰ خان نے شیخ مجیب سے کہا کہ صدر ایوب اور حزب اختلاف کی تحریک میں فوج غیرجانبدار رہیگی۔

یہ دو واقعات میں نے اس لئے تحریر کئے ہیں کہ اعزاز سید نے اپنے حالیہ مضمون میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جوالزامات لگائے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔ صدر ایوب اور یحیٰ خان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے ۔ اگر ، بقول اعزاز سید، بھٹو ۱۹۷۰ء میں مقبول رہنما نہیں تھے، تو یحیٰ خان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ان کے جہاز کو دوران سفرلاڑکانہ کے بجائے پنڈی پہنچایا جائے اور ان کے تینوں مطالبے مان لیے جائیں اور ذرا مطالبات پر غور کریں، اس میں کوئی ایک ایسا مطالبہ ہے جو شہید بھٹو کی ذات یا ان کی جماعت کے فائدے کیلئے ہو؟ یہ تمام مطالبات اس وقت پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے اہم تھے۔

اس وقت فوج میں اندرون اختلافات تھے ایک طرف جنرل ایوب خان شیخ مجیب الرحمان کو جیل سے بلاکر چک لالہ پر خود استقبال کر رہے تھے تو دوسری طرف جنرل یحیٰ خان کے حکم پر مہوپرواز طیارے کا رخ موڑ کر اسلام آباد پہنچایا جا رہا تھا۔ بھٹو نے اس وقت کی صورتحال سے فائدہ اٹھایا کہ یحیٰ خان سے تین اہم مطالبات منوائے۔

اعزاز سید کے پاس بات کے کیا شواہد تھے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں بھٹو پاکستان کے مقبول رہنما نہیں تھے؟ اگر وہ یحیٰ خان کے آنکھوں کا تارا ہوتے تو پورے مشرقی پاکستان میں طوفانی انتخابی مہم نہ چلاتے، وہ لاڑکانہ میں لمبی تان کر سو جاتے اور صبح کو نتائج اسی طرح ان کے حق میں آتے جیسے ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں عمران خان کے حق میں آئے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے لوگ گواہ ہونگے کہ مشرقی پاکستان کا وہ کونسا چھوٹا بڑا شہر ، گائوں تھا جہاں بھٹو نہیں پہنچے؟ ضلع ٹھٹہ کے سمندری جزیروں سے لیکر گلگت بلتستان، اسکردو کی پہاڑی چوٹیوں تک بھٹو بھاگتے پھر رہے تھے وہ اس وقت پاکستان کے مقبول لیڈر نہیں تھے ، آپ کے اس فیصلے کیلئے کونسا پیمانہ تھا یہ تو کم از کم ہمیں سمجھادیتے۔

عزاز سید لکھتے ہیں کہ پاکستان کو ۷۱ء کی جنگ میں بھارت نے شکست دی، اور فوج کے اندر سے ردعمل آیا تو یحیٰ خان نے اقتدار بھٹو کے حوالے کرنے میں عافیت سمجھی۔ مجھے نہیں پتہ راقم نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کیا۔ لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں یحیٰ نے اقتدار بھٹو کو پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔
جنرل یحیٰ خان کا اصل پلان کیا تھا، عزاز سید اگر اس پر تھوڑی سی تحقیق کردیتے تو، وہ یہ نہیں لکھتے جو انہوں نے لکھا ہے۔ اس پر کچھ حقائق سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا لیکن زیر نظرمضمون میں ہی اعزاز سید نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے خفیہ ایجنسی میں سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے کیلئے ایک سیل قائم کیا۔ تو ہم اسی بات سے شروع کرکے تسلسل کے ساتھ اعزاز سید کی غلط فہمیوں اور غلط معلومات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔

اعزاز سید ہی نہیں، بہت سے لوگ یہ الزام شہید بھٹو پر لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے کے لیے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کیا، ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ اپنی معلومات درست کریں، یہ کام جنرل یحیٰ خان کرکے جا چکے تھے۔ انہوں نے، میجر جنرل عمر کی سربراہی میں، نیشنل سیکورٹی سیل، این ایس سی قائم کیا تھا۔ جس کا کام یہ تھا کہ تمام خفیہ ایجنسیاں، بشمول آئی ایس آئی، ملک کی سیاسی صورتحال کے بارے میں معلومات این ایس سی کو پہنچائیں گی، جہاں اس معلومات کو کھنگالا جائیگا، تجزیہ کے بعد نتائج اخذ کئے جائیں گے اور وہ معلومات جنرل یحیٰ خان کو پہنچائی جائیگی جنرل یحیٰ خان این ایس سی کے ذریعے یہ نتجہ اخذ کرنا چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ کی تشکیل کس طرح ہو سکتی ہے اورآنے والے نئے سیاسی نظام میں فوج کا کردار کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔

اس حوالے سے این ایس سی کا خیال تھا کہ ۷۰ء کے انتخابات میں چھوٹی بڑی ۳۳ سیاسی جماعتیں میدان میں ہونگی، اور کوئی ایک جماعت اکثیریت حاصل نہیں کر پائیگی۔ اصل میں این ایس سی نے پیش گوئی کردی تھی کہ ینگ پارلیمنٹ وجود میں آئیگی۔ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی ۱۶۷ سیٹوں میں سے ۴۶ سے ستر سیٹیں حاصل کرسکے گی، جبکہ مشرقی پاکستان کی ۱۴۴ سیٹوں میں سے پیپلزپارٹی بیس سے تیس سیٹیں حاصل کرپائیگی۔ ان اعداد وشمار پر این ایس سی نے جنرل یحیِ خان کو یقین دلایا تھا کہ اس منقسم پارلیمنٹ کی موجودگی میں ان کی پوزیشن مضبوط ہوگی اور ان کا کردار بادشاہ گر کا ہوگا۔ ساتھ ہی فوج کی اصل اختیارات پر گرفت قائم رہیگی۔ جس کی بنیاد پر این ایس سی نے جنرل یحیٰ خان کو فری اینڈ فیئر انتخابات کے انعقاد کیلئے گرین سگنل دے دیا۔

اسی کے انتخابات فوج کیلئے ایک صدمہ ثابت ہوئے۔ جونتائج آئے ان کے مطابق مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ ۱۶۷میں سے ۱۶۲ سیٹیں حاصل کر چکی تھی لیکن مشرقی پاکستان سے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پائی۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے ۱۴۴ میں سے ۸۱ سیٹیں حاصل کرلی لیکن مغربی پاکستان سے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی۔ اب آتے ہیں اعزاز سید کی اس بات پر کہ۷۱ء کی جنگ میں شکست کے بعد آرمی کے اندر سے ردعمل آنے کے بعد جنرل یحیٰ خان نے اقتدار بھٹو کے حوالے کرنے میں عافیت سمجھی۔

مغربی بنگال میں کیا ہوا، اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ انڈیا کے ساتھ ۷۱ء کی جنگ شروع ہونے کے بعد دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنرل یحیٰ نے بھٹو سے کہا کہ اقوام متحدہ میں جاکر پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔۱۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو پولینڈ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ڈرافٹ رزولیوشن پیش کیا کہ مغربی پاکستان کے منتخب نمائندوں کو پرامن طور پر اقتدار منتقل کیاجائے۔ قرارداد میں فوری جنگ بندی کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان کی افواج اپنی سابقہ پوزیشنوں پر واپس چلی جائیں۔

چوبیس گھنٹے کے بعد قرارداد کی تحریری کاپی موصول ہونے کے بعد جنرل یحیٰ خان نے اصولی طور پر قرارداد قبول کرنے کے احکامات جاری کئے اور بھٹو کو نیویارک میں فون کرکے کہا کہ پولینڈ کی قرارداد مناسب ہے اسے قبول کیا جائے۔ لیکن بھٹو نے اس قرارداد کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کو قبول کرنا میرے ملک اور ذاتی طور پر میری موجودگی کیلئے بھی بے عزتی ہے۔ قبضے اور حملے کو قانونی کیسے قراردیا جا سکتا ہے، میں اس کا حصہ نہیں بن سکتا میں واپس جاکر لڑوں گا۔ اقوام متحدہ نے ڈہاکہ سانحے کی اجازت دے دی ہے میں یہاں اپنا وقت کیوں ضایع کروں، میں اپنے ملک جاکرلڑوں گا، جس کے بعد انہوں نے کاغذات پھاڑے اور سیکورٹی کونسل کے اجلاس سے نکل گئے۔

جنرل یحیٰ خان نے بھٹو کو ملک واپس آنے کو کہا لیکن بھٹو تین مزید دنوں کیلئے وہاں رک گئے۔ اسلام آباد واپسی پر وہ روم میں کچھ دیر کیلئے رکا کہ غلام مصطفیٰ کھر کی جانب سے گرین سگنل ملے تاکہ وہ ملک میں بلاخوف آسکے۔ بھٹو کو خوف تھا کہ یحیٰ خان ملک واپس پہنچنے پر انہیں گرفتار نہ کردے۔ کیونکہ سیکورٹی کونسل میں انہوں نے جنرل یحیٰ خان کی منشا و مرضی کے مطابق موقف نہیں اپنایا تھا۔

بیس دسمبر کو بھٹو اسلام آباد واپس پہنچے اور ایوان صدر میں یحیٰ خان سے ملنے گئے۔ سابق سفارتکار اقبال آخوند اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ ، جنرل یحیٰ خان ایوان صدر کے برامدے میں اکیلے بیٹھے تھے، وہ ایک پاگل جیسی حرکیتیں کر رہے تھے۔ دھاڑیں مارکر رو رہے تھے تو کبھی قہقہے مار رہے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہ حالات مزید خراب ہوکر، امن امان کا مسئلہ مزید نہ الجھ جائے، بھٹو نے فوری طور پر اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے روایت اور قانون کے مطابق، صدر اور پہلے سیولین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کے طور پر حلف اٹھالیا۔ یہ تھی وہ اقتدار کی منتقلی جو جنرل یحیٰ خان نے "پلیٹ ” میں رکھ کر شہید بھٹو کو پیش کیا تھا۔

میری اعزاز سید سے گذارش ہے کہ ان حالات کا تجزیہ کریں، اور دیکھیں اور بھٹو کو اقتدار کن حالات میں دیا گیا۔ اب آتے ہیں بقول اعزاز سید بھٹو نے دلائی کیمپ میں اپنے سیاسی مخالفین کو رکھا، جے اے رحیم اور معراج محمد خان پر بھٹو کا غصہ کے افسانے کی طرف اگر اعزاز سید ، شہید بھٹو کی جیل میں آخری کتاب، افواہ اور حقیقت پڑھ لیتے تو یہ باتیں نہ لکھتے۔ لگتا ہے کہ اعزاز سید صاحب نے سنی سنائی باتوں پر مضمون داغ دیا، بھٹو پر ایسے عامیانہ الزامات لگائے جو ماضی میں آمروں اور مارشل لا کی پروپیگنڈہ کا حصہ رہے ہیں۔

شہید بھٹو لکھتے ہیں، دلائی کیمپ ایک ریسٹ ہائوس ہے جسے برطانوی حکومت نے وادی کشمیر میں تعمیر کیا۔ ان دنوں بھارت کے ساتھ پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر یہ جگہ فوج کے کنٹرول میں تھی۔ اس لئے چیف آفس جنرل ضیاء کو دلائی کیمپ میں رہنے والوں کے بارے میں تمام معلومات ہوں گی اور انہیں وہ وجوہات بھی معلوم ہوں گی جن کی وجہ سے کچھ لوگ یہاں نظربند ہیں۔ اس بات کو یاد دلانا ضروری ہے کہ اس کیمپ کے سب سے بڑے نظربند چوہدری ارشاد نے رہائی کے بعد اکتوبر ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پاکستان پیپلزپارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی درخواست دی تھی۔ اگر چوہدری ارشاد کو معلوم ہوتا کہ ان کی نظربندی کی وجہ بھٹو یا پاکستان پیپلزپارٹی تھی تو وہ کبھی ٹکٹ کے لئے درخواست نہ دیتے۔ بلکہ پی این اے سے ٹکٹ لینے کی کوشش کرتے جسے اس وقت جنتا کی مکمل حمایت تھی اور اسے ہی آئندہ حکومت کہا جا رہا تھا۔

جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے حوالے سے شہید بھٹو لکھتے ہیں: صدر ایوب خان کے زمانے سے ہی مسٹر جے اے رحیم کے بارے میں جرنیلوں کا رویہ سخت مخالفانہ تھا۔ جرنیل انہیں "حرامی کمیونسٹ” کہتے تھے۔ عام طور پر جرنیل انہیں پاگل، خردماغ اور برطانوی بنگالی کے ناموں سے یاد کرتے تھے۔ میں نےمسٹر رحیم اور دوسرے ترقی پسند رکن مسٹر معراج محمد خان کو اپنی حکومت میں شامل کیا تو جنرل گل حسن اور ایئرمارشل رحیم خان نے، جو بادشاھ گر سمجھے جاتے تھے، ملاقات میں درخواست کی کہ رحیم اور معراج کو حکومت سے علیحدہ کردیا جائے اس لیے کہ مسلح افواج کے اعلیٰ افسران میں کابینہ میں ان دو افراد کی شمولیت کی وجہ سے سخت اضطراب پاجا جاتا ہے۔ میں نے ان کی درخواست کو ماننے سے انکار کردیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت کی تشکیل کے بعد پیرزادہ اور رضا کے ہمراہ مری میں آفیرسز میس میں گئے تو چند اعلیٰ افسروں نے حکومت میں مسٹر رحیم اور معراج کی شمولیت پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ میں نے انہیں سختی سے کہا کہ اپنے کام سے کام رکھیں۔

بھٹو نے وزیراعظم ہائوس میں جے اے رحیم کے رویے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور معراج محمد خان کے حوالے سے بھی تفصیلات موجود ہیں، بھٹو نے جے اے رحیم یا معراج محمد خان کو حکومت سے نہ نکالا تھا نہ ہی وہ ان کے غصے کا نشانہ بنے تھے بلکہ ان کے خلاف غصہ کہیں اور موجود تھا اور کہیں اور سے شہید بھٹو پر دبائو ڈالاجاتا رہا لیکن انہوں نے یہ دبائو قبول نہیں کیا۔ یہ ترقی پسند اور بائے بازوں کی سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ کن کی آنکھوں میں چبھ رہے تھے؟ یہ ڈھکا چھپہ تو نہیں۔ مضمون کی طوالت کی وجہ سے مزید تفصیل لکھنے کے بجائے مشورہ ہے کہ شہید بھٹو کی آخری کتاب، افواہ او حقیقت کا مطالع کریں کہ بھٹو کے خلاف جو افوہ ساز فیکٹری تھی اس نے کس طرح کام کیا اور حالات کو اس نہج پر پہنچایا۔ اور اس فیکٹری کی پراڈکٹس ابھی تک جاری ہیں۔

اخبارات، کل لکھی جانے والی تاریخ کا ذریع و ماخذ ہیں، اس میں غلط اور بے بنیاد باتیں لکھ کر آئندہ نسلوں کو گمراہ کرنے کے بجائے تھوڑا پڑھ لیا جائے تو شہید بھٹو اور عمران خان میں فرق واضح طور پر نظر آجائیگا۔تھوڑا پڑھ لینے میں کیا حرج ہے؟؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here