کراچی: وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاھ نے کہا ہے کہ ہم صوبائی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں عوام کے مفاد کے لیے 18 ویں ترمیم کے بارے میں اپنے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے وفاقی حکومت غیر قانونی طریقے سے تین اسپتالوں کا کنٹرول لینے کی کوشش کر رہے۔ وفاقی حکومت کو جاننا چاہیے کہ ہم یوں ہی نہیں بیٹھے رہیں گے کہ وہ ہمارے ہسپتالوں کو اسی سطح پر لے جائیں سندھ اسیمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کووڈ -19 سے نبردآزما تمام طبی عملے کیلئے ایک رواں بنیادی تنخواہ کی شرح سے ہیلتھ رسک الاؤنس کی منظوری دی جاچکی ہے۔اس رسک الاؤنس کو اب تمام ہیلتھ پروفیشنلزکے لیے توسیع دی جارہی ہے پوسٹ گریجویٹ / ہاؤس جاب آفیسرز کو بالترتیب گریڈ 17/18 کی ابتدائی بنیادی تنخواہ مارچ 2020 سے کووڈ- 19 وباء کے خاتمے تک دی جائے گی
2020-21 ہیلتھ رسک الاؤنس پر 1.0 بلین روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ صوبے میں کورونا ٹیسٹنگ کی استطاعت کو بڑھا کر 11450 روزانہ کر دیاگیا ہے تمام اضلاع میں 81 قرنطینہ مراکز جن میں 8266 بستر وں کی گنجائش موجود ہے قائم کیے گئے ہیں جون 2020 تک یہ گنجائش 8616 تک بڑھا دی جائے گی۔ طبی سہولیات اور خدمات کی بروقت اور درست فراہمی کے لیے سندھ حکومت نے میڈیکل پروکیورمنٹ کمیٹی قائم کی ہے۔ اس کمیٹی نے ضروری مشینری آلات اور اوزاروں کی 2.43 بلین روپے کی خریداری کی ہے جس میں 1.5 بلین روپے کورونا ایمرجنسی فنڈ سے اور 891.8 ملین روپے پی ڈی ایم اے فنڈ کے شامل ہیں موجود وینٹی لیٹرز میں اضافے کے لیے 101 مزید وینٹی لیٹرز بمعہ 250 مانیٹرز خریدے گئے ہیں نیپا چورنگی کراچی پر واقع وبائی امراض کے اسپتال کو گرانٹ ان ایڈ کے تحت 2.0 بلین روپے کی امداد دی گئی
حکومت سندھ کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی اثرا ت سے نمٹنے کے لیے بھی اقدامات عمل میں لا رہی ہے سندھ حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو 1.08 بلین روپے جاری کئے تاکہ ضرورت مندوں کو ان کی دہلیز پر راشن مہیا کیا جاسکے۔ پراپرٹی، موٹر وہیکل،پروفیشنلز، ٹریڈز، کالنگ اور ایمپلائمنٹ کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی میں استثناء نجی شعبے کے تحت زیر تعلیم طالب علموں کے لیے اپریل اور مئی 2020 کے لیے ٹیوشن فیس میں 20 فیصد کمی کا اعلان کووڈ- 19 کی وبا سے تحفظ کے لیے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بندش۔ سرکاری شعبے کے زیادہ تر دفاتر کی بندش، تاہم اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ لازمی خدمات کے ادارے اور دفاتر فعال رہیں نجی شعبے میں دفاتر، کاروبار اور صنعتوں کی بندش لیکن لازمی خدمات کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایاگیا تمام کمرشل اور نان کمرشل جہاں لوگوں کے اجتماع کے قومی امکانات ہوتے ہیں کو بند کیا گیا تاکہ طبعی روابط کو کم سے کم کیا جاسکے اور سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جاسکے۔
نجی شعبے کے دفاتر اور تجارتی مالکان پر اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے پر زور دیا گیا۔ کووڈ- 19 کے بارے میں حکومتی اقدامات سے باقاعدگی سے آگاہی کیلئے وڈیو خطاب بھی نشر کی گئیں۔ کووڈ- 19 کے خلاف اٹھائے گئے ہمارے اقدامات پر بعض حلقوں کی جانب سے ہمیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ہم تنقید کو مثبت طریقے سے دیکھتے ہوئے اپنے صوبے کے عوام کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے اقدامات جاری رکھیں گے۔ چین نے کووڈ – 19 سے نمٹنے کے اپنے تجربات سے ہمیں آگاہ کیا اس آگاہی کے سبب ہم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر انداز میں تیاری کی میں یہاں کووڈ -19 کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فراہم کیے جانے والے وفاقی حکومت کے تعاون کو بھی سراہنا چاہوں گا۔
کووڈ ایسا چیلنج نہیں کہ جس سے تنہا نمٹا جاسکے انفرادی قرنطینہ اگرچہ کہ کووڈ کا علاج ہے لیکن انتظامی قرنطینہ نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ وفاقی حکومت ٹیم ورک کی افادیت کے تصور کو نہیں سمجھ سکی ہماری اگلی صفوں کے کارکنوں اور ہمارے ہسپتالوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون درکار ہے وفاق نے ہمارے تین بڑے ہسپتالوں کے امور اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوششیں کی ہیں یہ ایک ایسی کوشش ہے جس میں وہ پہلے بھی ناکام ہو چکے ہیں ہمیں ایک امید تھی کہ ایسا عمل دہرایا نہیں جائے گا غیر قانونی طریقے سے جن اسپتالوں کا کنٹرول لینے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی کارکردگی کو ہمارے ماتحت سراہاگیا ہے وفاقی حکومت کو جاننا چاہیے کہ ہم یوں ہی نہیں بیٹھے رہیں گے کہ وہ ہمارے ہسپتالوں کو اسی سطح پر لے جائیں جس پر کبھی وہ انہیں چلایا کرتے تھے ہمیں توقع تھی کہ کووڈ کے ان ایام میں اس طرح کے ذاتی ایجنڈا سے گریز کیا جائے گا لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔
کووڈ – 19 کے خطرے نے مارچ 2020 میں خوفزدہ کرنا شروع کیا ہم رواں مالی سال کے ریونیو اہداف حاصل کر رہے تھے کہ کورونا نے سر اٹھایا اورچیزیں خرابی کی طرف جانا شروع ہوئیں تاہم ہم نے اپنے بروقت اقداما ت کے ذریعے زندگیوں اور معیشت کو بڑے خطرے سے بچا لیا ہے زرعی معیشت جی ڈی پی کے 24 فیصد کی حصہ دار ہے قومی پیداوار میں سندھ کا حصہ 36 فیصد چاول میں، 29 فیصد گنے میں، 34 فیصد کپاس میں اور 15 فیصد گندم میں ہے۔ ٹڈی دل نے ہماری فصلوں بلکہ ہماری معیشت کو بھی خطرات سے دو چار کر دیا ہے ہماری کاشتکار اس خطرے سے نمٹنے اور اپنی فصلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن (FAO) کی جانب سے خطرات سے آگاہی کی بناء پر سندھ حکومت نے دسمبر 2019 میں ٹڈی دل ایمرجنسی نافذ کی ۔ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسپرے، ہیلپ لائن کا قیام اور فیلڈ ٹیموں کی تعداد اب بڑھا کر 98 کر دی گئی اور ان ٹیموں میں 358 افراد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ہم نے آگاہی کے فروغ کے لیے میڈیا مہم شروع کی ہے اور ضلع اور تعلقہ سطح پر ٹڈی دل کی صورتحال کی نگرانی کے لیے کمیٹیاں بنائی ہیں ٹڈی دل کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہم کاشتکار، کسان، زرعی انجمنوں، سندھ آباد گار بورڈ اور چیمبر آف ایگریکلچر سے مستقل رابطے میں ہیں عالمی بنک نے بھی ٹڈی دل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہماری مدد کے لیے رابطہ کیا ہے چین کی حکومت بھی ٹڈی دل میں مد د کے لیے آگے آئی ہے گاڑیوں پر نصب کرنے کے لیے 12 ایئر بلاسٹ اسپریئر زفراہم کیے ہیں
ہمارا ملک کووڈ- 19 کے شدید چیلنجز سے نبرد آزما ہے کچھ حلقے 18 ویں آئینی ترمیم جسے 2010 میں مجلس شوریٰ نے منظور کیا کے مندرجات پر نظر ثانی کے مطالبات اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے حصے کی تقسیم کے فارمولے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں پاکستان قیام کےبعد سے اب تک 18 ویں ترمیم وفاق سے صوبوں کو اختیارت کی منتقلی کی جانب ایک اہم قدم ہے اس ترمیم کا کریڈٹ ہماری پارٹی قیادت کو جاتا ہے صدر آصف علی زرداری نے ملک کی قیادت کرتے ہوئے قوم کو 18 ترمیم کے تحفے سے نوازا 18 ویں ترمیم کے تحت سندھ نے کووڈ- 19 کے خطرات سے نمٹنے اور اس سے بچاؤ کے اقداما ت میں سبقت حاصل کی 18 ویں ترمیم کو پلٹانے یا اس میں ترمیم کرنےسے وفاق کمزور ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں وفاق اور وفاقی اکائیوں کے مابین اعتماد کا فقدان ہو گا ہماری پارٹی قیادت 18 ویں ترمیم کو ملک کی ترقی کے لیے اکسیرکا درجہ دیتی ہے ہم صوبائی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں جو کہ پاکستان کے عوام کو آئین میں تفویض کیے ہم عوام کے مفاد کے لیے 18 ویں ترمیم کے بارے میں اپنے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے 2018 کے انتخابات میں فتحیاب ہونے کے بعد یہ تیسرا بجٹ ہے جو ہم پیش کر رہے ہیں ہم عوامی خدمات کی فراہمی کا ایک موثر نظام وضع کرنے کے خواہاں ہیں
جس کے تحت صوبے کے عوام کو بہترین ممکنہ خدمات ان کی دہلیز پر فراہم کی جاسکیں