رپورٹ: قاضی آصف

برطانوی بادشاہت، جس کی سلطنت سے سورج نہیں ڈوبتا تھا، جس نے دنیا میں ممالک کے نقشے بدل کر رکھ دیئے۔جس نے ہندوستان کے بادشاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ہندوستان کے تمام راجے، مہاراجے، جاگیردار، نواب ، پیر، سب انگریزوں کی درباروں میں فقط کرسی پر بیٹھنے کی اجازت کیلئے پریشان  ہوتےتھے، انگریز فوج میں خدمات سرانجام دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے تھے۔
ایسے میں انگریز راج کے خلاف سندھ سے ایک صدا بلند ہوئی، وطن یا کفن، یہ صدا بلند کرنے والے صبغت اللہ راشدی،پیرپاگارو عرف سورہیہ بادشاہ تھے۔ انہوں نے فقط ہندوستان حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ دنیا کی طاقتور سپر پاور سے ٹکر لی تھی۔ اور اس سپر پاور کی جڑ ایسے کھودی کہ وہ سپرپاور بکھر کر ریزہ ریزہ ہوگئی۔
ایسے بہادر ، وطن دوست اور سرفروش کرداروں کا ذکر ملک کے درسی کتابوں میں نہیں بلکہ نسل در نسل عوام کے دلوں میں ملے گا۔
پیرپگاڑہ، سورہیہ بادشاہ جس بہادری کی ساتھ استعماری قوتوں کے خلاف لڑے وہ مذاحمتی تحریکوں میں ایک بہت بڑی مثال ہے۔ حر تحریک کے روح رواں سورہیہ بادشاہ نے سندھ میں انگریز حکومت کا جینا دوبھر کردیا۔ آزاد حکومتوں کے اعلان ہوئے، انگریز  افسروں کا اپنے دفتروں میں بیٹھنا محال ہوگیا۔ اورانگریزوں نے ۱۹۴۲ء میں ایک ایسا قانون پاس کیا جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی، تاریخ اسے حر ایکٹ کے طور پر جانتی ہے۔اس قانون کے تحت سندھ میں بسنے والے پیرپاگارو کے تمام مرید، جن کو حر کے نام سے پکارا جاتا ہے، سب کے سب مجرم اور دہشتگرد قرار پائے،اور حکم نازل ہوا کہ جو حر جہاں بھی نظر آئے اسے گولی مادی جائے۔
کہا جاتا ہے کہ سورہیہ بادشاہ نے یہ انگریزوں کے خلاف یہ تحریک ، نازی جرمنی کی مدد سے چلائی۔ یہ بات تھوڑی دیر کیلئے مان بھی لی جائے تو اس میں کیا خرابی تھی، اپنے وطن کو استعمار سے آزاد کرانے کیلئے کسی سے بھی مدد لے لیکر، سورہیہ بادشاہ نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔
بادشاہوں اور آمروں کی یہ عادت ہے کہ جب کسی بہادر حریت پسند کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر، اپنی ہی عدالتوں کے ذریعے سزائے موت دلوا دیتے ہیں۔ راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔
انگریزوں نے ہار مان کر، ان کو پھانسی کی سزا دی اور ۲۰ مارچ ۱۹۴۳ء کو سورہیہ بادشاہ کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی۔ انگریز سورہیہ بادشاہ سے اتنے خوف زدہ  تھے کہ ان کی جسد خاکی بھی ورثاء کے حوالے نہیں کی ، نامعلوم جگہ پر انہیں دفنا دیا۔اس سپر پاور کا یہاں وجود نہیں رہا، لیکن  سورہیہ بادشاہ کا نعرہ، وطن یا کفن، آج بھی گونج رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here