قاضی آصف

YouTube player
کاک پٹ سے آتی آخری آواز سنو

آواز اندر کا آئینہ ہوتی ہے۔ آواز کے ذریعے ہی خوشی، غم، دکھ، خوف کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم نے 22 مئی کو جو آخری آواز سنی، وہ فضا میں تحلیل نہیں، تاریخ میں محفوظ ہو گئی۔ لاہور سے کراچی آنے والی فلائیٹ، کراٌچی پہنچ تو گئی، لیکن لینڈ نہیں کر پائی، ایک ادھوناک حادثے کی صورت میں یاد بن گئی۔ جہاز میں بیٹھے مسافر، جیسے اکثر لینڈنگ سے پہلے ہوتا ہے، اترنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں، جہاز میں سے قریب تر آجاتا ہے تو، شکرادا کرتے ہیں کہ، پہنچ گئے۔ لیکن یہ کیسا پہنچنا، پہنچے بھی اور پہنچے بھی نہیں!!! اب اس دردناک حادثے کے بارے میں مختلف خیالات، آراء آتی رہیں گی۔ کوئی تحقیقاتی کمیشن، کمیٹی بنے گی وہ نتائج تک نہیں پہنچ پائے، یہ ممکن ہی نہیں، یہ الگ بات ہے کہ حقیقی نتائج عوام کے سامنے آتے جاتے ہیں یا نہیں، ذمہ داروں کو سزا ملتی ہے یا نہیں، اس کی کوئی گارنٹی نہیں، کیونکہ ایسی کئی مثال موجود ہیں۔ اس حادثے کی تمام تر دردناک واقعات اور تفصیلات کے باوجود میری توجہ کاک پٹ سے ابھرنے والی آخری آواز کی طرف کھینچ جاتی ہے۔ وہ شخص بلکہ وہ بہادر شخص کیپٹن سجاد، جو جہاز، عملہ اور مسافروں کی سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ آپ ان کے کنٹرول ٹاور سے آخری رابطے کو دوبارہ سنیں۔

وہ آواز سن کر آپ غمزدہ ہوجائیں یہ تو یقین ہے، لیکن یقین یہ بھی ہے کہ ان کی آواز سن کر، ان کی بہادری، ثابت قدمی پرفخر بھی ہوگا تو پیار بھی آئیگا۔ کیپٹن سجاد کے آخری بارایئرپورٹ کنٹرول ٹاور سے رابطے کے دوران بات چیت سے ایسا لگتا ہے جیسے کیپٹن ساجد، نارمل فلائٹ کر رہا ہو، ان کے جہاز کے ساتھ کوئی اشو نہ ہو،بڑا اطمینان ہو، وہ جب جہاز کے انجن کے بند ہونے کی بات کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی خوف، ڈر، جنجھلاہٹ شامل نہیں۔ وہ نارمل آواز میں ٹاور سے رابطے میں رہتا ہے۔ اور جب مے ڈے، مے ڈے کہتا ہے تو بھی ان کے آواز میں کوئی خوف، کپکپاہٹ، لرزش نہیں ہوتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سامنے موت ہو، کوئی راستہ نہ بچا ہو، تب بھی خود پر اتنا کنٹرول رکھنا، افسانوں میں تو ممکن ہے لیکن حقیقی زندگی میں جب ایسا ہو تو وہ ہیرو سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مرنے والوں کو ہی اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے کر، خود کو آزاد کرایا جائے لیکن، میں اس آواز کے مالک، بہادر انسان کیپٹن سجاد کو سلام کیئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ان کی آواز ایک بار پھر سننے سے، آپ کے اندر میں ایک ایک درد کی ٹیس اٹھے گی، تو دوسری طرف ان کے بہادری  کو سلام کرنے کیلئے آپ کا ہاتھ بھی اٹھے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here