میں تو ایک عورت ہوں بتا بھی نہیں سکتی کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
یہ پچیس سالہ غلام فاطمہ۔۔۔۔ جس کرب سے گذری ہے وہ اپنے ساتھ ہونے والی وحشت کے بارے میں بتا بھی نہیں پارہی۔ ہم بتا رہے ہیں۔
غلام فاطمہ لاڑکانہ شہر میں اپنے گھر کی سیڑھی سے گری اور ان کے ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔ان کو لاڑکانہ کے ایک پرائیویٹ اسپتال ، لاڑکانہ جنرل اسپتال لایا گیا۔
ڈاکٹر نے آپریشن کیلئے ، آپریشن تھیٹر میں لے جاکر، آپریشن سے پہلے بیہوشی کا انجکشن لگانے کی ہدایات دیں۔ لیکن کیا قیامت ہے کہ ان کے بیہوش ہوجانے کے بعد، آپریشن نہیں وہاں کے عملے نے ان کا ریپ کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔ان کو تھوڑا ہوش آیا، چیخی، چلائی، ڈاکٹر آیا تو ان سے دھاڑیں مارکر شکایت کی لیکن انہیں چپ رہنے ، اور باہر کسی کو یہ بات نہ بتانے کیلئے دبائو ڈالا گیا۔۔۔لیکن وہ کیسے چپ رہتی،،،،بول پڑی،،،،،،،،،،،
اب جیسے وہ کہہ رہی ہے، وہ عورت ہے، اپنے خلاف ہونے والے ظلم کی شکایت کرے ،،،،تو الٹا ان پر الزام لگانا آسان۔،،،،فقط ایف آئی آر کٹی، جس میں فقط ایک شخص، علی نواز کو نامزد کر کے گرفتار کیا گیا۔نہ ڈاکٹر گرفتار ہوا، نہ اسپتال سیل ہوا،،،،کچھ نہیں،،،،،اب نام نہاد تفتیش کے شور میں اس مظلوم خاتون کی آواز دب کر رہ جائیگی۔ کیونکہ ڈاکٹروں کی تنظیم نے تفتیش کے مکمل ہونے سے پہلے ہی بھی اس ظلم پر ڈاکٹر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے،،،،ہر طرف با اثر لوگ ہیں،،،،،،یہ تو غریب خاتون ہے،،،اس نقار خانے میں ان کی آواز کون سنے گا؟؟