قاضی آصف
فواد چوہدری، پیپلزپارٹی کے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے دور میں بھی وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے اطلاعات اور سیاسی معاملات تھے۔اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھی وہ اسی عہدے پر فائز تھے۔ انہی دنوں ہم نے انہیں لاہور میں صحافیوں کی تربیتی ورکشاپ میں مدعو کیا تھا۔ یہ قصہ جو میں لکھ رہا ہوں، وہ اس لئے کہ گذشتہ دنوں فواد چوہدری صاحب نے کراچی کے صحافیوں کے واٹس اپ گروپ پارلیمنٹریرین میں اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں جو اظہار خیا ل کیا، وہ کیا تھا اور جس واقعے کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہاں کیا ہوا تھا۔
ویمن میڈیا سینٹر”ڈبلیو ، ایم ،سی "پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو ملک بھر میں خاص طور پر میڈیا سائنسز میں پڑھنے والی طالبات کی تربیت کیلئے ملک بھر میں ورکشاپ کراتا رہاہے۔ اور آج ملک بھر کے ٹی وی چینلز پر جتنی بھی خواتین رپورٹرز یا ڈیسک پر ہیں انہوں نے یا تو ڈبلیو ایم سی کی تربیت کے بعد میڈیا میں آئی ہیں یا انہوں نے ایک یا دو بار تربیت حاصل ضرور کی ہے۔ یہ ادارہ سینئر صحافی فوزیہ شاہین کی رہنمائی و سربراہی میں چلتا ہے۔ اسی ادارے ڈبلیو ایم سی کی جانب سے لاہور کے ہوٹل میں الیکٹرانک میڈیا کا تربیتی ورکشاپ جاری تھا۔
ورکشاپ میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں میڈیا سائنسز کی چالیس کے قریب طالبات تربیت حاصل کر رہی تھیں۔ ہم نے لاہور میں اپنے دوست امداد سومرو کے توسط سے فواد چوہدری صاحب کو سرٹیفکیٹ ڈسٹریبوشن کیلئے مہمان خصوصی طور پر مدعو کیا۔ میں اس تربیت ورکشاپ میں ٹرینر تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ سرٹیفکٹس دینے کون آ رہا ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ پیپلزپارٹی کے وفاق میں اسپشل اسسٹنٹ فواہد چوہدری صاحب۔ لڑکیوں میں مایوس چھا گئی۔ اکثر نے کہا کہ سر یہ کیا ،کیا آپ نے، پیپلزپارٹی کے بندے کو بلا لیا۔ پیپلزپارٹی بھی کوئی پارٹی ہے؟
فواہد چوہدری صاحب پہنچے۔ اپنی ابتدائی تقریر کی۔ پھر ہم نے ہائوس اوپن کردیا۔ طالبات سے کہا کہ جس طرح پریس کانفرنس میں صحافی سوال کرتے ہیں آپ بھی اپنی مرضی کے سوال کریں۔ سوالوں کا طوفان شروع ہوگیا۔ ایک کے بعد دوسرا، تقریبا ایک گھنٹہ سوال و جواب میں گذر گیا۔ آخر ہم نے سوالوں کا سلسلہ ختم کرایا۔سرٹیفکیٹ تقسیم ہو گئے۔ جب فواد چوہدری صاحب چلے گئے۔ لڑکیاں اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور تالیاں بجانا شروع کیں۔ کہا، سر پیپلزپارٹی میں ایسے لوگ بھی ہیں، ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا۔ ہم تو پیپلزپارٹی کو ایویں ہی سمجھتے تھے لیکن فواد چوہدری صاحب نے جس طرح کھل کر بات کی ہے اور پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کے بارے میں سمجھایا ہے۔ واقعی آپ نے بہت اچھا کیا کہ ان کو بلایا۔
اس دن فواد چوہدری صاحب نے اٹھارویں ترمیم کی فوائد، اور اثرات پر اتنی تفصیل سے بات کی کہا کہ اگر اٹھارویں ترمیم انیس سو اکہتر میں ہوتی تو بنگلادیش الگ نہیں ہوتا۔ اور ایسی ہی باتیں این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں کیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے دفاع میں ایسی مدلل باتیں کیں کہ کچھ دیر پہلے جس پر لڑکیوں نے ناپسندیدگی کا ا ظہار کیا تھا، اب وہ اس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہیں تھیں۔ پارلیمنٹیرین واٹس اپ گروپ پر جب فواد چوہدری کااٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر غصہ دیکھا تو مجھے وہ لاہور کی تربیتی ورکشاپ کی بات یاد آ گئی۔ آسماں کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے؟؟ بات یہ ہے کہ اگر کسی بھی طرح اقتدار میں رہنا ہے تو شیخ رشید بھی ایسا ہی کرتےرہتے ہیں۔
ہم صحافی دوست آپس میں بات چیت کرتے وقت کہتے ہیں فواد چوہدری جتنا سائنسی سوچ اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ذہنی طور پر کلیئر ہے، جمہوری اداروں اور صوبائی خودمختیاری اور سیاسی حوالے سے بھی کلیئر ہوتے تو ان کے کیریئر کیلئے کیا ہی بات ہوتی۔ لیکن پھر بھی اتنا تو میں سمجھتا ہوں، فواد چوہدری ، اپنے موجودہ رہنما اور وزیراعظم عمران خان کی انٹرویوز اور تقریروں میں باتیں سن کر زیرلب ہنس تو دیا کرتے ہونگے۔ اس کا ظہار نہ کرے تو اور بات ہے۔