قاضی آصف

کراچی: ادارہ برائے امراض قلب، این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے کیا ہے کہ نیب دو ہزار سولہ سے این آئی سی وی ڈی کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔تمام ضروری ریکارڈ نیب کو فراہم کردیا گیا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے این آئی سی وی ڈی پر ریڈ کرتے رہتے ہیں۔ نیب اور ایف آئی کے ذریعے ہمارا مسلسل میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔

وی این ایس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بہت ہی رنجیدہ پروفیسر ندیم قمر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اب ایسا کوئی کاغذ بچا ہی نہیں کو نیب کے کو نہ دیا ہو۔
 ایک ڈاکٹر کو ناقص کارکردگی اور دوسرے کو بہت زیادہ تنخواہ مانگنے پر ہٹایا تھا، ہمارے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں۔

بدقسمتی سے میڈیا میں منفی چیزیں بغیر کوشش کے بہت زیادہ آجاتی ہیں، جبکہ مثبت باتوں کو دینے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے، بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ سرجن پرویز چوہدری ہم سے بہت زیادہ پیسے مانگ رہے تھے جو ہم نہیں دی سکتے، ہمارے پاس گنجائش ہی نہیں۔ ہم کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوئے۔ہم نے بہت برداشت کیا لیکن اب حد ہو گئی ہے۔

دل کے امراض کا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے، پانچ سال پہلے ایک اسپتال تھی، اب دس اسپتالیں ہیں۔
پورے ملک اور دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ اعلاج کیلئے آتے ہیں۔ میں چئلینج کرتا ہوں مجھے دنیا میں کوئی ایسا ادارہ دکھا دیں جو دل کے امراض کا اس حد تک اعلاج مفت میں کر رہا ہو؟ دنیا میں این آئی سی وی ڈی امراض قلب کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔

کراچی کا اسپتال انجیو پلاسٹی اور ہارٹ اٹیک کا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں، خون پسینہ سب کچھ این آئی سی وی ڈی کو دے دیا۔ یہ لوگ پانچ سال سے ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
اگر ہمیں یہ کام کرنے دیتے، ہم مزید بہتر سہولتیں میسر کر دیتے۔ ہم ابھی بھی کوشش کریں گے۔ ہم ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی طرف جائیں گے۔

ہم فالج کا اعلان بھی شروع کرنے جا رہے ہیں۔فالج ہونے سے چار گھنٹے اندر این آئی سی وی ڈی پہنچ جائے ہم مریض کے دماغ میں اسٹین ڈال دیں گے۔ اس ادارے میں نوکری کرنے کیلئے پوری دنیا سے لوگ اپلاء کر رہے ہیں کہ اتنا زبردست ادارہ ہے اس میں کام کریں، یہاں کسی کو بات سمجھ نہیں آتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ میڈیا اور ادارے آخر ہم سے چاہتے کیا ہیں؟ ہمارے لوگ بلاوجہ نیب کو کاغذات دیتے پھریں یا اپنا کام کریں؟

ہمارے لیئے اتنی مشکلات پیدا کردی ہیں، کیا یہ چاہتے ہیں کہ یہ پروگرام بند ہوجائے؟
کیا یہ انسانیت ہے؟ غریب کی مدد کرنے والا اس دنیا میں ہے کون؟ مریض جو اس اسپتال میں آتا ہے، اس کو اعلاج کیلئے پیسوں کی فکر نہیں ہوتی۔ دنیا میں کہیں بھی، انجیوپلاسٹی، ہارٹ اٹیک کی دوائیاں مفت میں کوئی نہیں دیتا۔ کون غریب لوگ ہیں جو اتنا مہنگا اعلان افورڈ کس سکتے ہیں؟

ایک سال میں سولہ ہزار انجیوگرافی مفت میں کرتے ہیں۔ پانچ ہزار بائی پاس آپریشنس کرتے ہیں۔ اس ادارے پر تو سب کو فخر ہونا چاہیئے، یہ ادارے کو لتاڑ رہے ہیں۔جس کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم نے کیا قصور کیا ہوا ہے؟ کونسی غلطی کی ہے، ہر چیز چیک کرلیں آپ۔ ہمارے ساتھ بہت نا انصافی ہو رہی ہے۔ اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس کے پچھے پڑ جاتے ہو، تو یہ ملک کیسے چلے گا؟

کوئی الزام نہیں خوامخواہ پریشان کیا ہوا ہے۔ این آئی سی وی ڈی کے پاس اب کوئی ایسا کاغذ بچا ہی نہیں جو نیب کو نہ دیا ہو۔ ہمار ماہرین سے آمریکا سے وڈیو لنکس کے ذریعے مشورے لئے جا رہے ہیں کہ کورونا کے دل کے مریض کو کس طرح نمٹا جائے۔ یہ فیصلہ کریں لیں کہ پاکستان میں اچھے اداروں کو چلنے کی اجازت ہے یا نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here