کراچی: پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ز شریف کی جانب سے گوجرانوالہ جلسے کے دوران پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر براہ راست انتخابات میں دھاندلی اور عمران خان کو برسرِاقتدار لانے کے الزامات پر کہا ہے کہ انھیں ’انتظار ہے کہ نواز شریف کب ثبوت پیش کریں گے۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پی ڈی ایم کے ایجنڈے کی تیاری کے وقت نواز لیگ نے جنرل باجوہ یا جنرل فیض کا نام نہیں لیا تھا۔‘ انھوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’وہاں (اے پی سی میں) یہ بحث ضرور ہوئی تھی کہ الزام صرف ایک ادارے پر لگانا چاہیے یا پوری اسٹیبلیشمنٹ پر لگانا چاہیے۔ اور اس پر اتفاق ہوا تھا کہ کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ کہا جائے گا۔‘
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ جب انھوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف کی تقریر میں براہ راست نام سنے تو انھیں ’دھچکا‘ لگا۔
’یہ میرے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے۔ مگر میاں نواز شریف کی اپنی جماعت ہے اور میں یہ کنٹرول نہیں کر سکتا کہ وہ کیسے بات کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ میں کیسے بات کرتا ہوں۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ڈٰی ایم کئی جماعتوں کا یہ یقینا ایک اتحاد ہے اور ہمارا ایجنڈا ہماری آل پارٹیز کانفرنس میں طے پانے والی قرارداد میں واضح ہے
’میں یہ واضح کر دوں کہ یہ نہ تو ہماری قرارداد میں مطالبہ ہے نہ ہی یہ ہماری پوزیشن ہے۔ جہاں تک بات نام لینے کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اور یقینا ایسا ہی ہوا گا کہ میاں صاحب نے بغیر ثبوت کے کسی کا نام نہیں لیا ہو گا اور اس قسم کے الزامات ثبوتوں کی بنیاد پر ہی آگے آنے چاہییں۔ میں یہ طریقہ کار خود اپنی جماعت کے لیے نہیں اپناتا کہ میں جلسوں میں اس (یعنی براہِ راست الزام لگانا) کو بیان کرتا۔ مگر میاں صاحب کا یہ حق ہے کہ وہ اس قسم کا موقف لینا چاہیں تو ضرور لیں۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھوں نے واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نام نہیں لیے ہوں گے۔ یہ ایسا الزام نہیں ہے کہ آپ ایک جلسے میں کسی پر بھی لگا دیں۔ ابھی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ کووڈ کی وبا کے باعث نواز شریف سے براہِ راست ملاقات کا موقع نہیں ملا، جو کہ بہت ضروری ہے، تاکہ میں ان سے ملاقات کروں اور اس معاملے پر تفصیل سے بات کروں۔‘
’مگر مجھے انتظار ہے کہ میاں صاحب ثبوت سامنے لائیں گے یا پیش کرنا چاہیں گے۔ لیکن اے پی سی کے اجلاس کے دوران میں نے ہی یہ شکایت کی تھی کہ جس طرح پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی قابلِ مذمت ہے، بالکل اسی طرح، مثال کے طور پر، ہمارے چیف جسٹس کا ڈیم فنڈ کی مہم پر نکلنا یا ان کی الیکشن کے دن کچھ سرگرمیاں قابلِ مذمت ہیں۔ اس لیے یہ ایک وسیع معانی رکھنے والا لفظ ہے اور آپ کسی ایک شخص کی طرف اشارہ نہیں کر سکتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو کہ جلسوں میں اس پر بات نہیں کی جائے گی’ہم تین نسلوں سے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کیسے لڑا جاتا ہے۔ پہلے دن سے اس پر کام کر رہا ہوں، اور آئندہ بھی بھاگوں گا نہ ہی رکوں گا، بلکہ اس مقصد پر کام جاری رکھوں گا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ اور ان کی جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے دوران تشکیل پانے والے ایجنڈے پر مکمل طور پر قائم ہے۔
پی ڈی ایم کے حالیہ جلسوں کے دوران نواز شریف سمیت متعدد مقررین کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے اقتدار ملا ہے اور یہ کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی تھی۔
پی ڈی ایم کا مطالبہ ہے کہ ایک ایسا کمشین بنایا جائے جو جمہوری حکومتوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کی تحقیق کرے اور ماضی اور موجودہ حکومت کی تشکیل میں اس کی مدد سے متعلق حقائق سامنے لائے۔