اسٹاف رپورٹر
کراچی: وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبے میں 85 لاکھ سے زائد بچے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس اور دیگر جگہوں پر تعلیم حاصل کررہے ہیں اور آخری مردم شماری کے مطابق صوبے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد 1 کروڑ 25 لاکھ ہے، اس طرح یہ کہا جائے کہ صوبے میں تعلیمی اداروں سے باہر بچوں کی تعداد 35 لاکھ کے لگ بھگ ہے تو بے جا نہ ہوگا، صوبے میں 49 ہزار سرکاری اسکولز ہیں جبکہ اس وقت 37 ہزار اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں، جس کے لئے اساتذہ کی تنظیموں اور عدلیہ کے احکامات کے تحت رولز بنا لئے گئے ہیں اور جلد ہی ان اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ 2017 تا 18 کے دوران اسکولز اور کالجز میں 1262 اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں اور یہ تمام فوتی کوٹہ کے تحت بھرتی ہوئے ہیں، جن میں کالجز میں 92 اور اسکولز میں 1170 اساتذہ بھرتی ہوئے ہیں۔
صوبے میں مضامین اسپیشلسٹ کی تعداد 791 ہے جبکہ اس مد میں 1148 اسامیاں خالی ہیں اور چونکہ یہ 17 گریڈ کی پوسٹ ہے، اس کے لئے پبلک سروس کمیشن کے تحت بھرتیاں ہوتی ہیں اور ہم نے انہیں تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے۔ وہ جمعرات کے روز سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران مختلف ارکان کے پوچھے گئے تحریری اور ضمنی سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ 2014 میں اساتذہ کی بھرتی کے حوالے سے اساتذہ تنظیموں کی جانب سے عدلیہ سے رجوع کیا گیا تھا اور اس کے بعد اساتذہ کی بھرتیوں کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں 49 ہزار سرکاری اسکولز ہیں اور ان میں 37 ہزار اساتذہ کی کمی کا ہمیں سامنا ہے۔ اب اس معاملے کو نمٹا دیا گیا ہے اور عدلیہ کے فیصلے کے تحت اساتذہ تنظیموں اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت سے رولز بھی مرتب کرلئے گئے ہیں۔
انہوں نے اپوزیشن رکن کے سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ 2017-18 کے دوران کالجز میں 92 اور اسکولوں میں 1170 ان اساتذہ کو مستقل ملازمیں دی گئی ہیں، جو فوتی کوٹہ پر ہیں اس کے علاوہ کسی کو کوئی ملازمت نہیں دی گئی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اسکولوں کے حوالے سے مختلف سروے کا کام ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اور اس وقت کے سروے کے مطابق صوبے میں 49 ہزار سرکاری اسکولز ہیں، جن میں 90 فیصد پرائمری اسکولز ہیں۔ انہوں نے خاتون رکن کے تحریری اور ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ پرائمری کے مقابلے سیکنڈری اسکولز کی کمی ہے اور اس سلسلے میں ہم نے مختلف منصوبوں کا آغاز کیا ہوا ہے اور اس میں ایک منصوبہ جو ورلڈ بینک اور حکومت کے فنڈز سے ہے جس کا نام ”سلیکٹ“ پے، اس منصوبے کے تحت اب تک 500 ایسے پرائمری اسکولز کو منتخب کرلیا گیا ہے، جن کو یا تو ہم سیکنڈری تک وسعت دیں گے یا ان اسکولز کے ڈھائی کلومیٹر کے اندر اندر سیکنڈری اسکولز بنائیں جائیں گے تاکہ ان بچوں کو جو ان پرائمری اسکولز سے کامیاب ہوں ان کو وہاں پر داخلہ دیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبے کے 9000 ایسے اسکولز جن میں انرولمنٹ 80 فیصد بنتی ہے، ان پر کام کا آغاز کردیا ہے اور یہ منصوبہ 2021 تک مکمل کرلیا جائے گا، جس کے بعد صوبے کے 80 فیصد طلبہ و طالبات کو ابتدائی تمام تعلیمی سہولیات اور اسکولز میں تمام سہولیات کی فراہمی یقینی ہوجائے گی۔ ایک ضمنی سوال پر صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ ماضی کی حکومت میں اپنے ووٹرز کو اوطاق کی فراہمی کے لئے ایک ایک گاؤں میں جہاں صرف ایک یا دو اسکولز کی ضرورت تھی، وہاں 25 اور 40 اسکولز بھی بنا دئیے گئے۔ یہ اسکولز صرف اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے تھے اور اس کا بند ہونا ہی بہتر ہے، اس لئے ایسے تمام اسکولوں کو جہاں انرولمنٹ نہیں ہے یا جو ساتھ ساتھ اسکولز ہیں وہاں بچوں کی تعداد ایک اسکول میں ممکن ہیں، ان کو ضم کرکے ایسے اسکولوں کو بند کیا جارہا ہے۔
ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ صوبے میں 6.2 یا 6.4 یا 7 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ انہوں نے کہاکہ نئی مردم شماری کے تحت صوبے میں ان بچوں کی تعداد جو اسکول جانے کی عمر ہے وہ (12.5 ملین)1 کروڑ 25 لاکھ ہے، جبکہ اس وقت سرکاری اور نجی اسکولز، مدارس، مختلف وہ نجی اسکولز جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، وفاقی حکومت کے زیر انتظام اسکولز سمیت دیگر میں 8.5 ملین (85 لاکھ سے زائد)بچے زیر تعلیم ہیں، اس طرح صوبے میں 35 سے 40 لاکھ بچے ایسے ہیں، جو اس وقت تعلیمی اداروں سے دور ہیں اور ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے سندھ حکومت نے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہوا ہے، صرف میرے اپنے محکمہ محنت میں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا ہے، جس میں جہاں رجسٹرڈ ساڑھے 6 لاکھ مزدروں اور محنت کشوں کے تمام بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ورکرز ویلفئیر بورڈ کے اپنے اسکولوں کے ساتھ ساتھ اب ان محنت کشوں کے بچوں کو سیسی اور ورکر ویلفئیر بورڈ کے تحت نجی اسکولز کی فیسوں کی ادائیگی کی بھی گورننگ بورڈ سے منظوری لے لی گئی ہے، اس کے علاوہ سندھ حکومت یونیورسلائزیشن آف ورکرز پر کام کررہی ہے، جس کے تحت تمام صوبے میں کام کرنے والے مزدوروں اور محنت کشوں کو اس میں شامل کرلیا جائے گا، جس کے بعد حقیقی اسکول نہ جانے والے بچوں کو ڈیٹا سامنے آجائے گا۔
ایک اور سوال پر سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھرتی ہونے والے اساتذہ جن جن تعلیمی اداروں میں تعلیم دے رہے ہیں، ان کا معیار بہتر ہے، ہمیں مشکلات اس دور کے بھرتی اساتذہ کے باعث درپیش ہیں، جن کو 20 سے 25 سال قبل خالی دستخط والے تقرری کے لیٹرز جاری کرکے انہیں اساتذہ بنا دیا گیا ہے اور وہی ہماری مشکلات کا سبب ہیں۔ مضامین کے اسپیشلسٹ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 17 مضامین کے اسپیشلسٹ ہوتے ہیں اور اس وقت ہمیں 1148 ایسے اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے اور ہمارے پاس 791 ایسے اساتذہ اس وقت تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ پوسٹ چونکہ 17 گریڈ کی ہے اور اس کی تقرری پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونا ہے، اس کے لئے ہم نے انہیں تحریری طور پر آگاہ کیا ہوا ہے۔