قاضی آصف
میں نے رات خواب میں دیکھا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری کو ایک خط تحریر کیا ہے وہ کچھ اس طرح تھا
میرے بہت ہی پیارے آصف
میرے دنیا سے جانے کے بعد، عالم ارواح سے آپ کے ساتھ پہلا رابطہ ہے۔ یہ رابطہ میں نے بہت پریشانی کی وجہ سے کیا ہے۔ میں رات سے جاگ رہی ہوں، کبھی کبھی میری آنکھیں بھرآتی ہیں ، اپنی بے بسی کی وجہ سے نہیں، میرے لوگوں کی بے بسی، لاچارگی کی وجہ سے، سوچا آپ کے سوا میں کس سے بات کروں؟
میں جنت الفردوس میں بہت بہترین جگہ پر ہوں۔ لیکن آج میری آنکھ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کہ وجہ سے کھلیں گئی ہیں۔ میں نے دیکھا، میرے لوگوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ میں دنیا میں نہیں، اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ میری اپنے لوگوں سے محبت ختم ہوگئی یا لوگوں کی مجھ سے محبت ختم ہوگئی۔ جس طرح میرے لوگ آج بھی میرے ساتھ اسی طرح محبت کرتے ہیں اسی طرح میری بھی اپنے لوگوں سے محبت اسی آب و تاب، شدت کے ساتھ ہے۔
میں اسی صورتحال میں تھی کہ شہید بابا ، پریشان، تیز تیز قدموں سے چلتے میرے پاس آئے، شدید غم سے بولے، پنکی یہ کیا ہو رہا ہے میرے لوگوں کے ساتھ؟ ممی ، میر بابا، شاہنواز ، اور دوسرے پارٹی کے شہداء جمع ہوگئے،سب یہاں سے اپنے لوگوں کو بے یارو مددگار بلڈوزروں کے سامنے دوڑتے بھاگتے، دیکھتے رہے۔ یہ سب لوگ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے جاگے اور اکٹھے ہوگئے تھے۔ سب بہت غمگین، کرب میں تھے۔ ابھی یہاں سےبھیگی آنکھوں سے اٹھ کر گئے ہیں ۔
پیارے آصف
یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کارکن، جو ووٹر نسلوں سے ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، کسی آمر،جابر کے آگے نہیں جھکے، کسی لالچ کی وجہ سے ہمیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ان لوگوں کو ہم نے کن حالات میں ملیر ضلع کا تحفہ دیا تھا، وہ آپ کو سب پتہ ہے۔ وہ آج اتنے بے یارومددگار ہوں، وہ بھی اس وقت جب سندھ میں ہماری جماعت کی حکومت ہو؟ کیا آپ کو اس علاقے کے منتخب نمائندے یا کارکن نے نہیں بتایا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ کو تو یاد ہوگا کہ میرا پارٹی کے مقامی عہدہ داروں ، کارکنوں سے براہ راست رابطہ ہوتا تھا۔ وہ میرے سامنے دل کھول کر باتیں کرتے تھے، اپنی شکایات بتاتے تھے۔ کئی بار وہ کڑوی باتیں بھی کرجاتے تھے، لیکن میں سنتی تھی۔کیونکہ میں ہی ان کا سہارا تھی، میں نہ سنتی تو وہ کس کو سناتے، وہ میرے پاس نہ آتے تو کس کے پاس جاتے؟ میں ان کی داد رسی نہ کرتی تو کون کرتا؟
آپ کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ کسی یوسی سطح کے پارٹی رہنما یا کارکن کو یہ یقین ہوتا تھا کہ اپنی بہن بے نظیر کے سامنے جاکر بات کرتے گا تو سنی جائیگی۔ جس کی وجہ سے کوئی سردار، وڈیرہ، جاگیردار، وزیر، میر، پیر اس بات سے خوف زدہ ہوتا تھا کہ یہ مجھ تک پہنچ جائیگا اور جواب طلبی ہوگی۔میری پارٹی کے منتخب نمائندے تو اپنی جگہ، پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ بھی براہ راست رابطہ ہوتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ رابطہ اب ٹوٹ گیا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پارٹی کارکن اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کی شکایت لے آئے اور آپ ان کی نہ سنیں؟ جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں، پارٹی کارکن آپ تک پہنچ نہیں پا رہے، ان کو آپ تک پہنچ نا ممکن سی بنا دی گئی ہے۔ پارٹی کے اندر اجلاسوں میں پہلے بولنے کا رواج تھا، اب شاید ہو کم ہوگیا ہے۔ علاقے کا پارٹی عہدہ دار، رکن صوبائی یا قومی اسمبلی، آپ کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔ وجہ؟؟
پیارے آصف
جس طرح آج ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مسلح افراد نے میرے ان لوگوں، جن سے میں، میرا والد، بھائی محبت کرتے تھے، مجھے یہ بھی شک نہیں کہ میرا لال بلاول بھی ان سے اسی طرح مجبت کرتا ہے،رویہ رکھتا ہے۔ لیکن جن لوگوں سے ہم محبت کریں، یا جو لوگ ہم سے محبت کریں، ان پر گولیاں برسائی جائیں اور ہماری صوبائی حکومت خاموش رہے؟ وہ مدد کیلئے ادھر ادھر بھاگتے رہیں لیکن ہمارے پارٹی رہنما، رکن صوبائی یا قومی اسمبلی کوئی وزیر، ترجمان، ان کے پا س نہ پہنچے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ کیسی کمپنی ہے جس کی محبت، ہمارے لوگوں پر بھاری پڑ گئی؟
ہم نے کسی آمر، جابر کے سامنےہار نہیں مانی، آپ نے بھی لمبی قید کاٹی، ہار نہیں مانی، کسی کے سامنے نہیں جھکے، ہماری پارٹی ایک پہاڑ کی مانند کھڑی رہی، لیکن اب کیا ہوگیا کہ ایک کنسٹرکشن کمپنی اتنی طاقتوربناجائے کہ ہماری پارٹی کے لوگوں کو لہو لہاں کردے اور ہم کچھ نہ کرپائیں؟
سچی بات یہ ہے کہ مجھ سمیت سب یہاں دکھی ہیں۔ میرا جسم کانپ گیا جب پرائیویٹ گارڈز میرے لوگوں پر گولی چلائیں، زخمی کریں اور ان کو اسپتال کے بجائے تھانے لے جائیں؟ آصف یہ کیا ہے؟ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ہماری حکومت اتنی لاچار ہے کہ کچھ نہیں کر سکتی۔ہماری پارٹی سندھ کے جزیروں پر اسٹینڈ لے سکتے ہیں تو ایک کنسٹرکشن کمپنی کے سامنے کیوں لاچار ہیں؟
یہ بھی بات مانتی ہوں کہ اس کنسٹرکشن کمپنی کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھی مضبوط روابط ہیں۔ لیکن یہ وجہ بتادیں کہ ہم اس اسٹبلشمنٹ کے سامنے اپنے لوگوں کی قیمت پر گھٹنے ٹیک دیں؟
میں چاہتی ہوں کہ میرا یہ خط بلاول کو بھی ضرور پڑھوائیں۔ میری آنکھوں سے آنسوں خشک نہیں ہو رہے۔ میرے ابا نے کہا تھا، میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں، جس کی چھت ٹپکتی ہے۔ اب حد یہ ہوگئی کہ اس ٹپکتی چھت کے درو دیوار کو مسمار کیا جارہا ہے، گھروں ، زمینوں پر قبضے کئے جا رہے ہیں۔ اور ہم کچھ نہیں کر پا رہے۔ یہ میں ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ایک کنسٹرکشن کمپنی ہمارے لوگوں پر بھاری پڑ جائے اور ہم مجبور ہوجائیں۔
پیارے آصف
اگر میری آنسوئوں کی کوئی قیمت ہے تو، میں جن لوگوں سے محبت کرتی ہوں ان کو بلڈوزر کے سامنے مجبور نہ ہونے دیں۔خواتین بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں اور ہماری پارٹی غائب ہوتی ہے۔ ہم ان لوگوں کی محبتوں کی وجہ سے ہیں، ان کے بل بوتے پر آمریتوں سے ٹکرا گئے، اور آمریتوں کو پاش پاش کردیا۔وہ طاقت کا سرچشمہ، ایک دولت کے سرچشمے سے ہار کھاجائے۔ یہ میرے لیئے اس ازیت سے کہیں زیادہ ہے جو پنڈی میں ملی تھی۔ اگر یہی ہونا تھا تو ہمارے پورے خاندان کو جانیں دینے کی کیا ضرورت تھی؟
میں یہاں سے یہ واضح کردیتی ہوں کہ میں کسی کنسٹرکشن کمپنی نہیں، عوام کی طرف ہوں، کسی خاموش حکومت چاہے وہ میری پارٹی کی کیوں نہ ہو، کی طرف نہیں اپنے عوام کی طرف ہوں۔ میری روح ان کے ساتھ کھڑی رہیگی ، چاہے اس پر بھی بلڈوزر چڑھادیا جائے۔ایک کنسٹرکشن کمپنی کو عوام پر فوقیت نہ دیں۔ اگر عوام کھڑے ہوگئے تو ہماری محبتوں کے واسطے دیکر بھی ان کو خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔ اس دن کو ذہن میں رکھیں کہ آپ کو لوٹ کر عوام کے پاس ہی جانا ہے۔
اپنے لوگوں کیلئے محبتیں اور دعائیں۔
آپ کی بینظیر بھٹو