رپورٹ: قاضی آصف
صحرائے تھر میں اب کی بار پھرموت رقصاں ہے۔مور مر رہے ہیں۔ انسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ منگل کے ایک دن میں ایک ہی ضلع تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں چارافراد نے مبینہ طور پر خودکشیاں کردیں۔اور فقط رواں سال کے تین مہینوں کے دوران چوبیس افراد خودکشیاں کر چکے ہیں۔ منگل کے روز تحصیل ڈاہلی کے گائوں چھو مینگھواڑ میں بائیس سالہ مولو مینگھواڑ نے کنویں میں کود کر جان دے دی۔ دوسرا واقعہ تحصیل اسلام کوٹ کے گائوں ورائی میں پیش آیا جہاں بندرھ سالہ عبدالرئوف کی بھی کنویں سے لاش ملی ہے۔تیسرا واقع مٹھی شہر کی بجیر کالونی میں ہوا جہاں چھتیس سالہ حسینہ نے رسی میں لٹک کر خودکشی کردی۔چوتھا واقعہ چھاچھرو کے قریب بھیرو مینگھواڑ نے نے کنویں میں کود کر خودکشی کرلی۔
یہ فقط ایک دن کے واقعات ہیں ایس ایس پی تھرپارکر کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ تین ماہ میں ۲۴ خودکشی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ جبکہ گذشتہ سال ایک سو بیس افراد خودکشی کر چکے تھے۔ تھر کے معاملات کے ماہر اور صحافی کھاٹائو جانی کے مطابق اسی فیصد خودکشیاں، کولھی، بھیل اور مینگھواڑوں میں ہو رہے ہیں جن میں اکثیریت خواتین کی ہے۔ کوئی کنویں میں کود کر جا ن دے رہی ہے کوئی کالہ پتھر کھا کر تو کوئی چھت میں رسی سے لٹک کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ یہ مبینہ خودکشیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ اس پر سماجی سائنس اور ماہر نفسیات کی طرف سے خاموشی ہے۔ پولیس مبینہ خودکشیاں کرنے والوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کراتی۔ کہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ قتل ہے جس کو خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے۔ان میں اکثیریت کھیت مزدوروں کی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق حالیہ مہنگائی نے دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں، کھیت مزدوروں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ اس کا خطرناک مہنگائی کا براہ راست اثر خواتین پر ہو رہا ہے کیونکہ گھر کی ذمہ داری ان کی ہے۔عذاب ہ وہ جھیلتی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی خودکشیوں کے اسباب معلوم کرنے کیلئے جنگی بنیادوں میں ماہر نفسیات کی ٹیموں کو تھر کے گائوں میں بھیج کر لوگوں کا سماجی و نفسیاتی مطالع کرانے کی سخت ضرورت ہے اور اس کے صد باب کیلئے تھر کیلئے کسی خصوصی پیکج کا فقط اعلان نہیں فوری عمل کر دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فقط تین مہینوں میں ایک ہی ضلع میں چوبیس خودکشیاں سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتی ہیں۔