Diary

فروا زیدی

زیادہ وقت نہیں گزرا بچپن کی بات ہے اپنی چھوٹی سی بیاز میں ندیم سرور کے نوحے لکھتے تھے بہت بار وہ ڈائری مجلس میں الٹی پکڑ کر ایک ایک لفظ کی ادائیگی درست ادا کرکے پورا نوحہ مکمل کرلیتے تھے۔ یہ وہ ڈائری تھی جس کے پہلے صفحے پر نام دوسرے پر نوحوں کی فہرست لکھی ہوتی تھی ہر تاریخ کے اعتبار سے نوحے درج ہوتے تھے جیسے پہلی تاریخ کو چاند محرم کے دوسری کو کربلا پہنچنے کے سوا دو مہینے کی ہر تاریخ کے اعتبار سے نوحے لکھنا پھر آوڈیو کیسٹ روک روک کر ایک ایک لفظ ڈائری میں قلم کرنا ایسی ہی مرثیے کی کتاب بھی ہوتی تھی جو چند ایک جگہ ابھی بھی ہوتی ہے ورنہ مرثیہ خوانی تو عموما اب کم ہی رہ گئی ہے اکثر افراد سوز و سلام کو مرثیہ کہہ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں ہم اردو ادب سے تھوڑی بہت دلچسپی رکھنے والے ایک آہ بھر کے سن لیتے ہیں۔

شاعری کا ذوق اس قدر تھا کہ گھروں کے بزرگوں کے سلام مجالس میں پڑھے جاتے تھے۔ استاد امانت علی خان استاد اسد علی خان صاحب کے سلام آج بھی یاد ہیں کوئی فتوے بھی نہیں آتے تھے کہ آواز سر کے بغیر ہو بلند ہو کم ہو گانے والوں کے سلام نہ پڑھیں جائیں زمانہ اتنا پرانا نہیں مگر دماغ اور سوچ مثبت تھی لوگ نوحوں اور مرثیے کی ڈائری لے کر مجالس میں آتے تھے تو ایک عجیب سا تاثر قائم ہوتا تھا۔

جیسے اس قوم کو کتاب اور قلم سے بہت لگاؤ ہے باب العلم کے ماننے والے قلم اور کتاب سے مانوس رہتے تھے۔
بچوں کی ابتدائی تربیت میں کتاب اور قلم سے لگاؤ بڑھتا جاتا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے جیسے یہ نوحوں کی ڈائری آنے والے سالوں میں نظر نہیں آئے گی اردو کی جگہ موبائل کی بولی جانے والی زبان رومن نے لے لی اور ڈائری کی جگہ موبائل نے لے لی۔ چلو اردو کی خیر ہے کیونکہ اردو کے ساتھ تو کہیں بھی اچھا نہیں ہورہا رومن ہو یا جرمن کوئی نا کوئی اردو کی جگہ لینے کے لئے تیار ہے۔

مگر کتاب اور قلم کا کردار اگر عزاداری سے نکل گیا تو علم کے فضائل کے خزانے جو علامہ ضمیر اختر کی لائبریری سے لے کر نجف کے کتاب گھروں میں موجود ہیں ان کو کس سوفٹ وئیر سے ڈاؤن لوڈ کریں گے۔ ایک طالب علم سے میں نے دو سال پہلے سوال کیا تھا کہ پاکستان سے اتنی کم عمری میں نجف کیوں آئے کہنے لگا اس زمین میں تاثیر ہے جتنا جس نے حلال کھایا ہوگا اس پر علم کے دروازے کھول دے گی یہاں کی ہر لائبریری میں علم کے سمندر ہیں بس آنے والا طالب علم ہو ۔

دیکھا جائے تو مجلس بھی درسگاہ ہے بس آنے والا طالب علم ہو اور صاحب منبر اہل علم جو کتاب اور قلم سے تعلق نسلوں کو سونپ کر جائے ورنہ ابو جہل کی جنگ کتاب اور قلم والوں سے ہی تو تھی جس کی آخری چال قلم چھین کر کھیلی گئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here