قاضی آصف
آج کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہیگا۔ اس پر اب مختلف زاویوں سے بحث مباحثہ ہوتا رہیگا۔ عدالتی فیصلے آئیں گے۔ آج کے بعد جو بھی ہو، لیکن حکمران جماعت، اور اس کے سربراہ، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سے پارلیمنٹ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس عمل کو غیر جمھوری عمل کے ہی سمجھا جائیگا۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو جمھوری انداز میں ناکام بنانا ان کا پورا جمھوری اور آئینی حق تھا اورہے لیکن جس انداز سے انہوں نے ایک مشکوک خط کو سہارا بناکر اسیمبلی کے پروسیجر کو بلڈوز کیا۔اس کی جمھوری دنیا میں کوئی حمایت نہیں کر سکتا۔
تین اپریل اتوار کے دن قومی اسیمبلی میں جو ہوا، دنیا بھر میں لوگوں نے لائیو دیکھا اور اپنے اپنے انداز میں تبصرے کر رہے۔ ہم یہاں آئینی ضرورت اور اسیمبلی کے رولز آف پروسیجر پر بات کریں گے۔ اور بتائیں گے کہ اصل میں ہوا کیا ہے؟
اتوارکے دن قومی اسیمبلی کے آرڈر آف دی ڈے، یا ایجنڈا میں پہلا نمبرتلاوت کلام پاک، دوسرا سوال و جواب، تیسرا کال اٹینشن نوٹس اور چوتھے نمبر پر شہبار شریف کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانی تھی۔
لیکن آپ سب نے دیکھا ہوگا جیسے ہی تلاوت کلام پاک ختم ہوئی، وفاقی وزیر قانون فواد چوہدری کھڑے ہوگئے اور اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری سے مخاطب ہوئے کہ آج کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہونی ہے لہٰذا میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ تحریک وزیراعظم عمران خان کے خلاف عالمی اشاری پر ایک سازش ہے طور پرپیش کی گئی ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ اس تحریک کومسترد کردیں۔
جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وہی الفاظ دہراتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرکے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
اب یہاں پر تھوڑی وضاحت ضروری ہے تاکہ بات کے آئینی اور قانونی پہلوئوں کو سمجھا جا سکے۔ اسیمبلی کیلئے جو بھی ایجنڈا جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اجلاس شروع ہونے کے بعد، اگر اس ایجنڈا سے ہٹ کر، کوئی بات کی جاتی ہے تو، کوئی وفاقی وزیر یا رکن، اسپیکر سے رولز رلیکس کرنے کی گذارش کرتا ہے۔ اس کیلئے بھی اسپیکراس تحریک کو ایوان میں پیش کرتا ہے، ایوان جو بھی فیصلہ کرے اس کے بعد رولز رلیکس کرکے ایجنڈا میں تبدیلی کرتے ہوئے بات کی جاتی ہے۔ لیکن اتوار کے اجلاس میں فواد چوہدری نے اسپیکر سے رولز رلیکس کرنے کی تحریک پیش کئے بغیرآئٹم نمبر چار، تحریک عدم اعتماد پر بات کرنا شروع کردی۔ جو ایک مکمل طور پر غیرقانونی عمل ہے۔
اس کے بعد انہوں نے جو اپنی تحریک پیش کی، اس کو بھی اسپیکر نے ایوان میں پیش نہیں کیا، نہ ووٹنگ کرائی، خود ہی فیصلہ کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرکے اجلاس ملتوی کردیا، جو ایک اور بنیادی غیر قانونی عمل تھا۔ جس پر سب کو تحفظات ہیں۔
بات کی جا رہی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ یا ایوان کی کارروائی کو عدالت سمیت کسی جگہ پر بھی چئلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سوفیصد متفق، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام آئینی اور قانونی مراحل کو پورا کیا گیا ہو۔ ورنہ، اسپیکر فھمیدہ مرزا کی رولنگ چئلینج ہو چکی ہے۔ یہ دو بنیادی غلطیاں یا غیر آئینی اقدامات تھے جو فواد چوہدری اور قاسم سوری نے کئے۔
جس کے بعد فوری طور پر وزیراعظم عمران خان نے قوم سے مختصر خطاب میں صدرمملکت کو قومی اسیمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائز بھیجنے کا اعلان کیا۔
اب اس میں مزید آئینی سکم ہیں۔ اب لوگوں کو یہ بات سمجھ آنا شروع ہوجائیگی کی اٹھارویں ترمیم نے کس حد تک جمھوری نظام اور صوبائی خودمختاری کو مضبوط کیا ہے۔
وزیراعظم نے صدر مملکت کو قومی اسیمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائز بھیج کر ملک کو ایک پیچیدہ آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ وہ کیسے؟
وہ اس طرح کہ اب صدر مملکت کے پاس یا صوبوں کے گورنرز کے پاس یہ اختیارات نہیں کہ اپنی مرضی سے اسیمبلیاں تحلیل کردیں۔ اس کیلئے آئینی ضروریات ہے جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ جیسے، صدرمملکت وزیراعظم کی ایڈوائیز کے بغیر قومی اسیمبلی نہیں توڑ سکتا۔ اس کیلئے وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت کو ایڈوائیز بھیج دی، جس کے فوری بعد انہوں نے وفاقی کابینہ ختم کرکے قومی اسیمبلی تحلیل کردی۔
لیکن اب صوبائی اسیمبلیوں کو کیا ہوگا؟ کسی بھی صوبائی اسیمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے وہاں کی وزیر اعلیٰ کی ایڈوائز کی ضرورت ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں تو کوئی وزیر اعلیٰ موجود ہی نہیں،کیونکہ عثمان بزدار مستعفی ہو چکے ہیں، نیا وزیراعلیٰ ابھی تک نہیں ہے۔ جب وزیراعلیٰ سرے سے ہے ہی نہیں تو گورنر کو اسیمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائیز کون بھیجے گا؟
دوسری طرف بلوچستان کا یقین نہیں لیکن فقط خیبرپختونخواہ کی اسیمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وزیراعلیٰ سندھ صوبائی گورنر کو اسیمبلی تحلیل کرنے کی کوئی ایڈوائیز بھیجے۔ اس کا مطلب سندھ کی اسیمبلی ٹوٹ نہیں سکتی، وہ معیاد پورا کرے گی۔
اور کیا حیران کن بات ہے کہ آئین کے آرٹکیل ۲۲۴ کے تحت صدر نے وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔جبکہ اس آرٹیکل کے مطابق اسیمبلی معیاد پورا کرے تو قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم سمیت نگران حکومت قائم کی جائیگی۔ لیکن اسیمبلی معیاد پورا کرنے سے پہلے ہی تحلیل ہوں تو اس کیلئے بھی نوے دن کے تحت انتخابات کرانا اور نگران حکومت بنانا ضروری ہے۔ وہی وزیراعظم تو برقرار نہیں رہ سکتا۔ نئے انتخابات کرانے والا نگران وزیراعظم یا ان کے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔
یہ ہے آئینی بحران۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیکر ملک کے کسی بھی ادارے کو کوئی بھی غیرآئینی قدم اٹھانے سے منع کردیا ہے۔ اس مختصر آرڈر کا مطلب غیرجمھوری قوتوں کو مداخلت سے روکنا ہوسکتا ہے۔اس ضمن میں مزید عدالتی کارروائی چار اپریل، پیر کے دن ہوگی۔ اس کے بعد عدالتی فیصلہ جو بھی آئے کیونکہ آئینی بحران کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔ دیکھیں عدالت کیا فیصلے کرتی ہے۔ عمران خان نے جو کرنا تھا کرگذرا، ملک کی تاریخ اس عمل کو ہمیشہ سیاہ قدم کے طور پریاد رکھے گی۔