قاضي آصف


عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر حملے پر پورے ملک کی صحافی برادری میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ای میل میں ان کے لکھے ہوئے ایک جملے کے الفاظ میرے ذہن میں دوڑ گئے۔ ” میں میدان چھوڑ کر بھاگا نہیں کرتی۔

چند دن قبل لاپور میں گھر کے قریب صحافی عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر حملے کی خبر آئی، ان کی گاڑی کی ونڈ اسکرین کے کرچی کرچی شیشہ دیکھا۔ بچوں سمیت سلامت ہونے کی خبر سے کچھ اطمینان ہوا۔

چار ماہ قبل عنبرین فاطمہ پاکستان پریس فائونڈیشن (پی پی ایف) کی طرف سے ہونے والے سیفٹی اینڈ سیکورٹی فیلوشپ (بیچ تھری) حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس فیلوشپ میں پاکستان بھر سے پندرہ فیلوز منتخب کئے گئے تھے۔

میں پاکستان پریس فائونڈیشن کی طرف سے اس فیلوشپ کیلئے کنسلٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔اور اب بھی کر رہا ہوں۔ فیلوز کی اسٹوریز کو دیکھنا، اور ان کی اسٹوریز میں مطلوبہ معلومات کیلئے رابطے میں رہنا میری ذمہ داری تھی۔

عنبرین فاطمہ صاحبہ نے اپروئل کیلئے جن چھے اسٹوریز کے موضوع بھیجے تھے، ان پر، ان سے ای میل اور واٹس اپ پر رابطہ رہتا۔

ظاہر ہے وہ پاکستان کے ایک اچھا نام رکھنے والے صحافی احمد نورانی کی بیگم ہیں، وہ خود پریشر میں ہے، تو ان کا پورا خاندان بھی اسی طرح دبائو میں ہوگا۔ خاص طور پر تب، جب ان کی بیگم کا تعلق بھی صحافتی شعبے سے ہو۔

عنبرین فاطمہ نے پہلا موضوع پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی رپورٹنگ میں صحافیوں کو پیش آنے والی مشکلات، لیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں بڑے اہم واقعات پر تحقیقاتی اسٹوری بنائی۔

 ایک مقام پر میں نے محسوس کیا کہ وہ سخت دبائو میں ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنی اچھی صحافت کرنے والی رپورٹر کچھ چیزوں کو صرف نظر کردے۔ میں نے جب اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھائے تو ایک دن اچانک انہوں نے ای میل کیا کہ، وہ یہ فیلوشپ چھوڑ رہی ہیں۔

میں نے ان سے بذریعہ ای میل گذارش کی کہ آپ جیسی سنجیدہ صحافی کو یہ فیلوشپ نہیں چھوڑنی چاہیئے، آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، اگر چاہیں تو جس موضوع پر کام کر رہی ہیں،اس میں اگر مشکلات پیش آ رہی ہیں تو، اس موضوع کو تبدیل کرلیں۔

اس پر عنبرین فاطمہ نے واٹس اپ پر میسج بھیجا کہ "میں میدان چھوڑ کر بھاگنے والی نہیں۔ لیکن میں اس سے بھی ایک اور اہم موضوع پر اسٹوری پہلے کرنا چاہتی ہوں۔  بعد میں انہوں نے ” مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں اور پاکستانی صحافیوں کی مشکلات” کے موضوع پر کام کرنا شروع کیا۔ ظاہر ہے یہ موضوع تو پہلے موضوع سے بھی زیادہ حساس تھا۔

 ای میلز کے ذریعے اسٹوری کو آگے لیجانے کے مشورے ہوتے رہے۔ جب انہوں نے یہ اسٹوری ملکمل کرلی۔ ایک بار پھر عنبرین فاطمہ نے ای میل کیا کہ،یہ بہت حساس اسٹوری بن گئی ہے، مکمل بھی ہوگئی ہے لیکن  مجھے لگتا ہے یہ اسٹوری چھاپے گا کوئی نہیں۔ لہٰذایٰ میں اس فیلوشپ سے الگ ہو رہی ہوں۔

میں نے محسوس کیا کہ وہ واقعی کسی بڑے دبائو میں ہے۔وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہیں۔  کسی بھی رپورٹر کیلئے اسٹوری سے زیادہ جان عزیز ہے۔ اگر وہ فیلوشپ سے الگ ہونا ہی چاہتی ہے تو اب یہ ان کی مرضی ہے۔ پھر میں نے دوبارہ ان کو فیلوشپ جاری رکھنے کیلئے گذارش نہیں کی۔

گذشتہ دنوں جب ان پر لاہور میں حملے کی خبر آئی تو میرے ذہن میں عنبرین فاطمہ کی فیلوشپ چھوڑنے والی بات ذہن میں آئی۔ اور محسوس ہوا کہ وہ واقعی بہت بڑے دبائو کا شکار رہی ہیں۔اور انہوں نے یہ فیلوشپ مجبوری میں چھوڑی ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کی جان کی سلامتی کے حوالے سے صوبہ سندھ میں قانونسازی تو ہو چکی ہے، دیگرصوبوں میں ابھی نہیں ہوئی،لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے صحافیوں کی جان کی سلامتی کا بل منظور ہو چکا ہے۔ ابھی تک صدرپاکستان کی جانب سے اس پر دستخط باقی ہیں۔ جس کے بعد وہ قانون میں تبدیل ہوجائیگا۔

عنبرین فاطمہ کے معاملے کو بہت سادہ یا معمولی سمجھ کی نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرے۔جیسے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والی نہیں، لیکن صحافتی تنظیموں کو بھی ان کے ساتھ کھڑا رہنا ضروری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here