pm imran khan

امر جلیل

ہم سب میں اچھائیاں ہوتی ہیں۔ ہم سب میں برائیاں ہوتی ہیں۔ ہم سب سے میری مراد ہے ہم آدمی، انسان، بندے اور بندے دے پتر۔ میرا مطلب ہے آپ، میں اور ہمارے ہیرو۔ امکان سے باہر ہے کہ آپ میں اور مجھ میں تو خامیاں ہوتی ہیں مگر ہمارے ہیروز میں خامیاں نہیں ہوتیں۔ ان میں صرف خوبیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہمارے ہیروز انسان ہوتے ہیں، تو پھر لازماً ان میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں یہ قدرت کا قانون ہے۔ اس مظہر پر کسی کا بس نہیں چلتا۔

پاکستان کی تاریخ میں ہم سب نے گوشت پوست کے ایک شخص کو ہیرو پرستی کی انتہا پر دیکھا تھا۔ پرستار اسے پوجتے تھے۔ اس کی پرستش کرتے تھے۔ اس شخص میں کسی قسم کی خامی کو بعید ازقیاس یعنی امکان سے باہر سمجھتے تھے۔ اپنے ہیرو پر رتی برابر تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ ہیرو کی شان میں گستاخی کرنےوالےکو کھڑے کھڑے موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ میں الطاف حسین کی بات کر رہا ہوں۔ دہشت ہوتی تھی اس کے نام میں۔ اس کے پیروکار آنکھ جھپکتے پہیہ جام اور شٹر ڈاٶن اسٹرائیک کرا سکتے تھے۔ منٹوں میں شہر کراچی منجمد کرا سکتے تھے۔

اس نوعیت کی ہیرو پرستی ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کی بھی نہیں دیکھی تھی۔ تشویش ناک حالت میں کوئٹہ سے کراچی پہنچنے پر ان کو ایئر پورٹ سے گورنر ہاٶس لے جانے کے لئے چھکڑا قسم کی ایمبولنس دینےوالوں کے خلاف پرستاروں نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ پرستار سڑکوں پر نہیں نکل آئے تھے دوسرے روز بے بسی کے عالم میں قائداعظم کے جسد خاکی کو آخری آرام گاہ تک چھوڑ آئے تھے۔ قائداعظم کے پیروکار اور پرستار جنونی نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پرستار جنونی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں تنقید کا ایک لفظ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

ان پر چلنے والے مقدمہ کے دوران سمجھا جاتا تھا کہ خلاف توقع فیصلہ آنے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی انتظامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ حکومت وقت بھی گھبرائی گھبرائی لگ رہی تھی۔ راولپنڈی، لاہور، کراچی میں چوراہوں پر بکتر بند گاڑیاں کھڑی کر دی تھیں۔ حساس مقامات پر ٹینک بھی دکھائی دیتے تھے۔ خاص طور پر راولپنڈی میں ہیلی کاپٹر لگا تار اڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ فیصلہ خلاف توقع آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا گیا۔ چھوٹے موٹے احتجاجوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوا تھا۔ ویسے تو ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والے کم جنونی نہیں تھے۔

تنفید کا ایک لفظ ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو کو ملنے والی پھانسی کے خلاف نہ پہیہ جام ہوا، نہ ہوائی جہازوں کی پروازوں میں تاخیر ہوئی۔ نہ ریل گاڑیاں رکیں۔ کاروبار زندگی چلتا رہا۔ جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ملنے کی افواہ پھیلی تھی اس رات جیل کے باہر دس لوگ بھی دکھائی نہیں دیئے تھے۔ کچھ عادتوں کے بارے میں ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ وہ عادتیں اصل میں ہماری خامیاں ہوتی ہیں یا خوبیاں ہوتی ہیں۔ اس نوعیت کی عادتیں آپ میں بھی بہ کثرت پائی جاتی ہوں گی۔ مثلاً مجھے جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تب میں بلا جھجک لوگوں سے رجوع کرتا ہوں۔

مخمصوں سے نکلنے کے لئے بات سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ گفت و شنید کرتےہوئے لوگوں کو بیزار کر دیتا ہوں۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی اس رات ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائیوں کا جم غفیر راولپنڈی جیل کے باہر کیوں دیکھنے میں نہیں آیا تھا؟ کہاں غائب ہو گئے تھےجیالے؟ میں آج تک خاطر خواہ جواب کے لئے مارا مارا پھر رہا ہوں۔بے نظیر بھٹو کا قتل ایک سازش کے تحت ہوا تھا۔ یہ بات ہم بونگوں کو فوراً سمجھ میں آگئی تھی۔

اگر کوئی سیانا تجزیہ کار ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتا کہ اصل میں قاتل نے ایک چڑیا مار گرانے کے لئے گولی چلائی تھی مگر اتفاقاً گولی بے نظیر کی کنپٹی پر لگی تھی اور وہ جاں بحق ہو گئی تھی۔ لہٰذا کسی سازش کے تحت بےنظیر کا قتل نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک اتفاق تھا۔ ایکسیڈنٹ تھا۔ ایسی احمقانہ اختراع کو بونگے کبھی قبول نہیں کرتے مگر جس معاملہ نے ہم بونگوں کو آج تک سوچوں میں بھنور سے نکلنے نہیں دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو کس نے آگے کیا تھا کہ بےنظیر کے قتل ہونے کے فوراً بعد تم لوگ آگ لگانے اور لوٹ مار، اور توڑ پھوڑ کرنےکے لئے فوراً اپنے اپنے بلوں سے باہر نکل آنا اور معاشرے کو تاراج کر دینا؟ تب ایسا ہی ہوا تھا۔

ابھی ٹیلی وژن اور ویڈیو سے بے نظیر کے قتل کی خبریں آرہی تھیں کہ آناً فاناً خاص طور پر کراچی میں آتش زدگی اور لوٹ مار شروع ہو چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے تخریب کار پٹرول کے کنستر اور مشعلیں لےکر حکم کے منتظر تھےاور پھر حکم ملتے ہی شہر پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم بونگے گتھی سلجھانا چاہتے ہیں۔ یہ بات آقاٶں کو یاد رکھنی چاہئے کہ جب حقائق عام آدمیوں سے چھپائے جاتے ہیں تب افواہوں کا سونامی امنڈ آتا ہے۔ بڑی کاریگری سے چھپایا گیا ہے کہ بےنظیر کے قتل کا ماسٹر مائنڈ اور بے انتہا فائدہ حاصل کرنے والا کون تھا۔ مگر پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بے نظیر کا قاتل کون ہے۔ آپ اور میں اس لیے نہیں جانتے کیوں کہ آپ اور میں بچے نہیں ہیں۔

بچے ہوتے تو قاتل کے بارے میں سب کچھ جان چکے ہوتے۔آج کل طرح طرح کی افواہیں کپتان عمران خان کے بارے میں گشت کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ نہیں مانتے کہ ان کو کورونا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ صبح، شام، رات، آدھی رات کے وقت ٹیلی وژن پر آنے اور لگا تار نہیں چھوڑوں گا، نہیں چھوڑوں گا، نہیں چھوڑوں گا کی رٹ لگانے کی وجہ سے پس پردہ ہدایات دینے والوں نے خان صاحب کو کچھ عرصے کیلئے ٹیلی وژن سے پرہیز کرنےکی ہدایت کی ہے۔ نہیں چھوڑوں گا، نہیں چھوڑوں گا کی لگا تار رٹ سنتے سنتے لوگ پاگل پن کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔ پندرہ دن تک وزیراعظم آپ کو ٹیلی وژن پر دکھائی نہیں دینگے۔ اس دوران لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here