قاضی آصف


آج سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر، وفاقی وزیر خارجہ شاھ محمود قریشی نے سندھ کے حوالے سے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے اس کو جمہوری دنیا میں کوئی بھی بہتر کہے گا نہ ایسے الفاظ استعمال کرنے کا کوئی جواز ہی پیش کر سکتا ہے۔ یہ غصہ ہے ان کی وفاقی حکومت کی ناکامی کا۔ دنیا اور ملک بھر سے جو کورونا کے حوالے سے پالیسی پر جو ان پر تنقید ہو رہی ہے، اس نے ان کو ہواس باختہ کردیا ہے۔

قومی اسیمبلی اور سینٹ کے اجلاس کورونا کے حوالے سے بلائے گئے تھے لیکن وزیراعظم عمران خان، جن کے پاس صحت کا پورٹ فولیو بھی ہے، انہوں نے شرکت نہیں کی۔ حالانکہ ان کی پارٹی کا یہ نیریٹو رہا ہے کہ کورونا وائرس، فلو سے زیادہ کچھ نہیں، خوامخواہ خوف پھیلایا ہوا ہے۔ اگر کورونا اتنا خطرناک وائرس نہیں تو آپ اسلام آباد میں ہوتے ہوئے بھی اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کر رہے؟ اور ان کی طرف سے آتے ہیں، جناب شاھ محمود قریشی جن کا اپنی وزارت پر تو کوئی اختیار ہے نہیں۔ کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر ہر ملک اپنے لوگوں کی جان بچانے میں مصروف ہے، تو موصوف کے بیرونی دورے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ اور عالمی سطح پر منہ پر منافقت کی مسکراہٹ بھی نہیں سجا پا رہے۔ تو وہ کرے تو کیا کرے؟ ان کا کام کیا رہ گیا ہے سوائے اپنے آقائوں کی کاسہ لیسی کرنے کے۔

بیچارہ کیا کرے کہ جب اپنی سابقہ جماعت سے غداری کی، ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر اپنی پارٹی کی حکومت کو تنہا چھوڑ دیا، اس وقت بھی وہ وزیر خارجہ تھے۔ اپنی پارٹی سے شاید اس بنیاد پر غداری کی کہ انہیں آئندہ سیٹ اپ میں کوئی بہتر موقع ملے گا۔ لیکن ہوا کیا۔ انہیں تو اس لائق بھی نہیں سمجھا گیا کہ وزارت داخلہ ہی دی جائے۔ انہیں وہی وزارت خارجہ ہی پکڑا دی گئی جو ان کے پاس پہلے بھی تھی۔ جس سے آگے بڑھنے کیلئے انہوں نے اپنی پارٹی سے غداری کی تھی۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں سوائے غیرملکی دوروں کے ان کے پاس کوئی اختیار بھی نہیں۔

شاھ صاحب، سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ کتا بھی کھایا اور پیٹ بھی نہیں بھرا، بھوک وہی رہی۔ تو اپنی پارٹی سے غداری بھی کی کہ شاید آپ کو ڈپٹی وزیراعظم ہی بنا دیا جائے، لیکن ایسا ہوا ہی نہیں، آپ نے غداریوں کے بدلے جو وزیراعظم ہونے کی امید لگائی ہوئی ہے وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کی طرح تین مہینے کی نگران وزارت عظمیٰ ملے تو ٹھیک ورنہ اور کوئی امید بر آنے کی امید نہیں۔ سندھی، سرائیکی اور پنجابی میں بہت سی کہاوتیں ایک جیسی ہیں، ایک اور بھی کہاوت ہے جو آپ پر بہت فکس ہو رہی ہے لیکن وہ یہاں لکھنے جیسی نہیں۔

آپ نے سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر، حکومت سندھ، جس کو سندھ کے لوگوں کو مینڈیٹ ملا ہوا ہے، اسے دھمکیاں دے رہیں ہیں؟ آپ کسی بھی صوبے کی جمہوری حکومت کو کس طرح دھمکیاں دے سکتے ہیں، گرا سکتے ہیں؟ کونسا غیر جمہوری طریقہ اپنائیں گے؟ سارے چور دروازے تو اٹھارویں ترمیم نے بند کر دیئے ہیں، شاید اس لیئے بھی آپ کو غصہ زیادہ آ رہا ہے کہ آپ جمہوری طریقے سے کسی صوبائی حکومت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ تب ہی تو آپ کو آٹھارویں ترمیم زہر لگ رہی ہے۔ اگر غیرجمہوری طریقہ بھی اختیار کرنا پڑے تو، آپ کو پہلے آئیں کو ختم کرنا پڑے گا۔ آئین کو ایک طرف رکھتے ہیں تو آپ کی وفاقی حکومت بھی نہیں بچ سکتی۔ جرات ہے کہ آپ کے وزیراعظم صدر سے کہیں کہ قومی اسیمبلی توڑ دے؟؟ اور آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ غیرجمہوری اور آمریتی ہتھ کنڈوں سے صوبہ سندھ نے کتنی مزاہمت کی ہے اور سالہا سال کی ہے۔ تو کیا آپ کا کوئی بھی غیرجمہوری عمل وہ کیسے برداشت کرپائیں گے۔ وہ ملک کے وفادار ہیں، ان کو اپنے ملک کے وفادار رہنے دیں۔

حکومت سندھ کی کارکردگی جیسی بھی ہے، ان سے ان کے ووٹر پوچھیں گے، وہی سزا و جزا کا حق رکھتے ہیں۔ آپ سندھ کے لوگوں پر بلڈوزر چڑھا نہیں سکتے۔ سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر آپ کم علمی کا اتنا مظاہر کرتے ہوئے ایک صوبائی حکومت سے کہتے ہیں کہ "آپ ہوتے کون ہیں بجلی کے بل معاف کرنے والے؟؟” شاھ محمود قریشی صاحب آپ کوئی بادشاھ ہیں اس ملک کے اور سندھ کے لوگ آپ کی راعیا ہے؟ آپ کوئی فرعون جیسی طاقت رکھتے ہیں اور سندھ کے لوگ اپ کے غلام ہیں۔

بھائی اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں اور مرکز کے مالکانہ حقوق آدھے آدھے ہیں۔ اور اگر کوئی اختلاف کا نقطہ آتا ہے تو وہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں حل ہوگا۔ کیا آپ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لے گئے؟؟ کیا وہاں یہ طے ہوا کہ صوبے کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے، تو جو آئین میں دکھایا گیا راستہ ہے اس کو ایک طرف رکھ کر آپ سینٹ کے فلور پر ایک صوبے کے فرعون جیسی زبان استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے سندھ میں مرید ضرور ہیں لیکن آپ کے غلام یا ووٹر نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ تھر سے ہار نہیں جاتے۔ یہاں کے لوگ آپ کے بڑوں کی روحانی طور پر عزت کرتے ہیں، آپ ان کی ایوان میں کھڑے ہوکر بیعزتی نہ کریں۔

آپ سندھ اسیمبلی میں فارورڈ بلاک بھی نہیں بنوا سکتے، اٹھارویں ترمیم اس میں بھی رکاوٹ ہے۔ جو آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ آپ کے جیب میں ہیں تو پہلے ان سے استعفیٰ دلوا کر انتخابات میں جانا پڑے گا۔ کرلیں، لگ پتا جائیگا۔ شاھ محمود قریشی صاحب آپ اچھے پیر ہو سکتے ہیں، جو لوگوں سے سالانہ وضیفہ بہتر انداز میں وصول کرسکے لیکن یہ طے ہوا ہے کہ آپ اچھے سیاستدان نہیں۔ اور جس طرح کی زبان آپ نے سینٹ میں استعمال کی ہے، اس کے بعد خاص طور پر سندھ میں آپ کو مختلف نظر سے دیکھا جائیگا۔ ویسے اپنی معلومات کیلئے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ ہوتے کون ہیں سندھ کے مینڈیٹ کی توہین کرنے والے؟؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here