چیمبرز گرائے جانے کے خلاف مشتعل احتجاجی وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چمبر سمیت رجسٹرار آفس میں توڑ پھوڑ کی اور چیف جسٹس کے چیمبر کے باہر شدید نعرے بازی کی،
اسلام آباد کچہری میں چیمبرز گرانے کے خلاف وکلا نے چیف جسٹس کے چمبر سمیت رجسٹرار براچ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا، وکلا کی جاری احتجاج 10 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ داخل ہوئے اور 2 بجے تک مسلسل جاری رہا، وکلا نعرے لگاتے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک میں داخل ہو گئے جب کہ وکلا نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے بلاک میں کھڑکیوں کے شیشے، ایل سی ڈی ٹیبل اور دروازے توڑتے رہئے، وکلا کا کہنا تھا کہ اگر کے کے غیر قانونی چمبر گرائے گئے ہیں تو چیف جسٹس کا چمبر بھی تھنس نھنس کریں گے، کوریج کے دوران اے آر وائی نیوز نمائندہ خصوصی جہانگیر اسلم بلوچ کو بھی زد کوب کیا گیا، ہائیکورٹ میں موجود سیکورٹی اہلکاروں نے جہانگیر اسلم کو کلا کے چنگل سے بچا لیا گیا اور ہائیکورٹ کے ڈسپنسری میں منتقل کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک میں جب وکلا آئے تو اس وقت اسپیشل سکیورٹی پولیس نہیں تھی اور اسلام آباد پولیس کے دستے کافی دیر بعد عدالت پہنچے جب کہ اس دوران چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ اپنے چیمبر میں محصور ہو گئے، چیف جسٹس کی موجودگی میں چیف جسٹس کے چمبر کو کلا تھوڑتے رہئے، اس موقع پر مشتعل وکلا نے صحافیوں اور عدالتی اہلکاروں سے بدتمیزی کرتے رہئے، جب کہ وکلا نے اسلام آباد کی ضلع کچہری میں تمام عدالتیں بند کرادیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی مقدمات کی کارروائی روک دی گئی، وکلا کے احتجاج کے سبب اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام سائلین کا داخلہ بھی بند کر دیا گیا اور ہائیکورٹ کی سروس روڈ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔
مشتعل مظاہرین سے جسٹس محسن اختر کیانی نے وکلا کو بار روم میں بیٹھ کر بات کی پیشکش، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو مسئلہ حل نہیں ہو گا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ چیف جسٹس کے چیمبر سے ساتھیوں کو نکالیں تاکہ بات ہو سکے، اگر وکلا کو لگتا ہے ان سے زیادتی ہوئی تو بیٹھ کر ہمیں بتائیں، سیکرٹری داخلہ آئی جی پولیس اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر، سیکٹر کمانڈر رنجیز، رجسٹرار اسلام آباد اور چیف جسٹس اطہرمن اللہ سے طویل مذاکرات جاری ہیں، چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو ناقص سیکیورٹی انتظامات پر سرزنش کی، موجودہ صورتحال کے مطابق حالات رنجیرز اور پولیس کے کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔