قاضی آصف
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری سندھ اسیمبلی آڈیٹوریم میں دھیمے لہجے میں غیرجذباتی، میڈیا کوبریفنگ دے رہے تھے۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے جذبات کو بہت کنٹرول کرتے ہوئے بول رہے تھے۔ وہ مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا بھی چاہ رہے تھے لیکن پھر، ضبط کرکے، دھیمے لہجے میں جواب دے رہے تھے۔ ان کی بریفنگ کے حوالے سے زیادہ تر باتیں میڈیا کے چینلز پر آ چکی ہیں۔ جس میں انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ اگر کام سنبھالانہیں جا رہا تو، خود ہی استعفیٰ دے کر ذمہ داری کسی اور کو سونپ دے۔ وہ اسلام آباد کے میئر بن کر رہنا چاہتے ہیں، یا ملک کے وزیراعظم۔ اور ملک میں کتنے لوگ وبا میں مریں تو وزیراعظم کو اطمینان ہوگا اور وہ مزید سخت لاک ڈائون کیلئے آمادہ ہونگے۔ بلاول بھٹو کی تقریبا تمام باتیں میڈیا میں آ چکی ہیں۔ میں ایک دو اور باتیں کرنا چاہ رہا ہوں، کو لائیو میں تو چل گئیں ہونگی لیکن بعد میں میڈیا میں نہیں آئیں۔
میڈیا بریفنگ چل رہی تھی کہ ایک صحافی دوست کی طرف سے بچکانہ سوال آیا کہ لوگ لاک ڈائون سے تنگ آ چکے ہیں،اس کو اب ختم ہو جانا چاہیئے۔ ہم صحافیوں نے بھی اس سوال پر ایک دوسرے کو دیکھا۔ بلاول بھٹو نے صحافی کی طرف دیکھا۔ اور کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ لوگ بیزار ہو گئے ہیں یا بیزار کئے گئے ہیں۔ ہم کسی کی خواہش، صنعتکار کے مطالبے، وفاق کی جانب سے بار بار اس قسم کا اظہار کرنے کے باوجود لاک ڈائون ختم نہیں کریں گے۔ ہم ڈبلیو ایچ او کی جانب سے دی ہوئی ایس او پی پر چل رہے ہیں۔ ہم فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈک کے مشورے کے بعد ہی لاک ڈائون ختم کریں گے۔ لوگ خفا ہو گئے ہیں۔ لیکن ہمارے سامنے عوام کی زندگیاں عزیز ہیں۔کچھ لوگوں کی ناراضگی کے باوجود ہیں عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے وہ کچھ کریں گے جس کی ضرورت ہوگی۔
اس کیلئے ہم اس بات کو نہیں دیکھیں گے کہ کون خوش او کون ناراض ہے۔ اگر عوام ان کی زندگیاں بچانے پر بھی خفا ہیں تو آئندہ ہمیں ووٹ نہ دیں۔ ہمیں منتخب ہوکر اسیمبلیوں میں بھیجا ہے تو ہم عوام کے زندگیاں محفوظ بنانے کیلئے ہر قدم اٹھائیں گے۔ اور پورا رمضان لاک ڈائون جاری رہے گا۔ انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ عید پر کراچی سے باہر نہ جائیں، پورے سندھ میں وائرس بڑھ رہا ہے۔ شہر میں اپنے گھر میں رہیں۔مئی کا مہینا بہت خطرہ ہے۔ اس سے نمٹنا ہے۔ میرے ایک سوال پر بلال بھٹو نے کہا کہ ہم عوام کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پورے میں ملک میں سب سے زیادہ راشن سندھ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قلم کار اور تاریخ آزاد ہیں کہ وہ لکھیں کہ ہم نے عوام کیلئے کیا کیا ہے۔ کیونکہ پوچھا فقط سندھ سے جاتا ہے، ملک کے کسی صوبے سے نہیں پوچھا جاتا کہ وہاں کیا ہوا، وہاں کی حکومت نے کس طرح کام کیا۔