قاضی آصف
سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ راولپنڈی جیل مجید قریشی، ٹی وی اینکر، وسیم بادامی کو ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات میں شہید بینطیر بھٹو نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ سیل کا آہنی گیٹ کھولا جائے تاکہ وہ اپنے والد سے آخری بار گلے مل سکے۔ لیکن انکارکیا گیا۔ والد اور بیٹی نے ایک دوسرے کو گلے لگانے کی کوشش کی لیکن بیچ میں آہنی گیٹ کی سیخیں تھیں، بعد میں انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چومے۔ بھٹو صاحب نے بینظیر کے کان میں کچھ باتیں کیں۔ بیگم نصرت بھٹو، قریب کرسی پر ساکت بیٹھی تھی اور ان کی آنکھوں سے زروقطار آنسوں رواں تھے۔
اسی رات پھانسی پر چڑھنے سے پہلے بھٹو صاحب نے مجید قریشی سے کافی پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جواب ملا، آپ کا پورا سامان پیک ہو چکا ہے، کافی نہیں دی جا سکتی، کیونکہ پھانسی گھاٹ کی طرف جانا ہے۔
اسی جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے اپنی یاداشت میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب کو لاش کو پھانسی کے پھندے سے اتار کر اسٹریچر پر رکھا گیا۔ ایک فوٹو گرافر آگے آیا، انہوں نے بھٹو کی لاش کی شلوار کا اگلا حصہ اتار کی کوشش کی تو میں انے ان کو روکا، لیکن مجھے کہا گیا کہ، جو وہ کر رہا ہے وہ کرنے دیں۔ فوٹوگرافر نے تصویرلی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے لکھا ہے کہ ان کو بتایا گیا کہ یہ اوپر سے حکم ہے۔ بتایا گیا کہ اتھارٹیز اس بات کا اطمینان کرنا چاہ رہی تھیں کہ ان کا ختنہ ہوا ہے کہ نہیں جس سے بھٹو صاحب کے مسلمان ہونے نہ ہونے کا اندازہ لگایا جائیگا۔
اسی شخص کی بیٹی،اپنے والد اور پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہونے والی ازیتوں کا حساب مانگے، آمر کو للکارے،عوام ان کا ساتھ دے، ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو پھر انگلیاں اٹھنا شروع ہوں کہ بینظیر "مورثی سیاست” کر رہی ہے۔
یہی شہید بینظیر بھٹو، آمریتوں کو للکارے، اپنے والد سمیت پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کے قتل اور پھانسیوں ، ازیتوں کا حساب مانگے، ایک عدالت سے دوسری عدالت کی راہداریوں میں دوڑتی پھرے، اور پھر پنڈی میں ہزاروں لوگوں کے سامنے قتل کردی جائے۔ اپنی شہید ماں کو دفنانے کے بعد، ان کا بیٹا کوئی اسلحہ اٹھانے کے بجائے، نئودیرو میں نعرہ لگائے کہ ، جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے، عوام ان کا ساتھ دے، احتجاج کی سدائیں بلند ہوں، کافلہ آگے چلے تو اس کو کہا جائے "مورثی سیاست”
اسی شہید محترمہ کی بیٹی، آصفہ بھٹو زرداری، جن کا بچپن، جیلوں کے دروازوں پر والد سے ملاقات کا انتظار کرنے میں گذرے، ماں کے گود میں عدالتوں حاضریاں بھگتے، وہی اگر ہار ماننے کے بجائے آمریتی عمل کے خلاف ملتان کے جلسے میں ماں کی طرح للکار کرے، عوام ان کو وہی پذیرائی دے، محبتوں اور شفقتوں کا اظہار کرے تو اس کو کہا جائے ” مورثی سیاست”
ایک منتخب وزیراعظم، جس کے پاس کسی بھی ادارے کے کسی بھی ملازم کو مناسب اسباب کی وجہ سے ہٹانے اور تبادلہ کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ اپنے اس اختیار کا استعمال کرے تو،ان کو گلے سے پکڑ کر جیل میں ڈالا جائے۔وہ خود زمین پر تھے لیکن طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کیا جائے۔پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ ان کی جماعت کو توڑ کر دوسری جماعت تشکیل دی جائے، ان کے تمام ساتھی ادھر ادھر بکھر جائیں، کچھ کو جیل میں ڈال کر صعوبتیں دی جائیں، ان کی بیوی بیگم کلثوم نواز بہادری کے ساتھ لاہور سے اپنے گھر سے نکل کر کراچی آئے،جیلوں اور پیشیوں کے چکر کاٹے، آمر کیلئے للکار بنے،بہادری کے ساتھ جم کر کھڑی رہے، عوام ان کا ساتھ دے تو اس کو کہا جائے یہ "مورثی سیاست ” کر رہی ہے۔
وہی بہادر خاتون، بیرون ملک کینسر جیسے موذی مرض کے ساتھ لڑرہی ہو، ان کے وارڈ کے دروازے توڑ کر ان کی تصویریں لی جائیں، یہ یقین کرنے کیلئے کہ وہ واقعی بیمار ہے یا نہیں۔ پیچھے عدالتوں کی چیخ و پکار ہو، ایک بیٹی مریم نواز اپنی بیمار والدہ کو چھوڑ کر، والد کو ساتھ لیکر گرفتاری دینے کیلئے لاہور ایئرپورٹ پر آئے، والد کے ساتھ جیل جائے، ان کے چچا، کزن بھی جیل میں ڈال دیئے جائیں، بھائیوں کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جائیں۔ ماں کا باہر سے لاش وصول کرے۔ پھر وہ اگر اٹھ کر کھڑی ہو، آمریتوں کے ہاتھوں ہار نہ مانے، عوام ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھائے، ساتھ دے، تو اس کو کہا جائے "مورثی سیاست”
یوسف رضا گیلانی کو اسپیکر کے دور میں لوگوں کو روزگار دینے کے جرم میں جیل ڈال دیا جائے اور وہ پانچ سال تک وہاں سڑتے رہیں، اپنی پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ جب وزیراعظم بنیں تو کورٹوں میں گھسیٹا جائے، اس کو وزیر اعظم کی کرسی سے عدالتوں کے ذریعے ہٹایا گیا۔انتخابات کے دوران ان کے بیٹے کو اغوا کرلیا گیا۔پھر بھی اپنے اصول پر قائم رہے، ان کے بیٹے ملک کے جمہوری اداروں کی مضبوطی آمرانہ روش کے خلاف بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوں، جیل میں ڈا ل دیئے جائیں،عوام ان کے ساتھ ہوں تو دوسری طرف سے آوازیں آنا شروع ہوں ” مورثی سیاست” مورثی سیاست”
ہر وقت آمریتوں سے نبردآزما، جان کے نذرانے دینے والوں کی اولاد، اپنی شکست تسلیم نہ کرے، اٹل ہوکر کھڑی ہوجائے، تو ان پر مورثی سیاست کا ٹھپہ لگا کر، ان کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا جائے۔یہ کس کی پالیسی ہوگی؟
یہ مورثی سیاست کی بات کرنے والے لگ بھگ وہی بات کر رہے ہیں جو جنرل ایوب خان، فاطمہ جناح کے خلاف کرتے تھے، مائنس جناح ۔جو بات جنرل ضیاء کرتے تھے، مائنس بھٹو۔ جو جنرل پرویزمشرف بھی کرتے تھے، مائنس بینظیر، اور مائنس شریف فیملی۔ جو اب پس پردہ قوتیں کہہ رہی ہیں مائنس نواز شریف، اور مائنس بھٹو زرداری۔
یہ جو ٹی وی چینلز پر بیٹھے کچھ اینکرز اور نام نہاد صحافی جب مورثی سیاست کے بارے میں بات کرتے ہوئے منہ سے جھاگ بہاتے رہے ہیں۔ ان کو یہ اندازہ نہیں یا جان بوجھ کر حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں کہ، بھٹو صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا، اگر ان کے قریبی ساتھی، حنیف رامے، غلام مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر مبشر، حفیظ پیرازادہ اور بذات خود بھٹو کے چچازاد بھائی ممتاز بھٹو سمیت بہت سے اہم لوگ آمریت کے ڈر سے بھاگ نہ جاتے تو بیگم نصرت بھٹو کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ستر کلفٹن پر صحافی محموو شام کو خفیہ طور پر ہاتھ میں پرچی پکڑا دیتی کہ، جدوجہد جاری رہیگی۔ اگر پارٹی کے سرکردہ لوگ سمجہوتہ نہ کرتے تو بیگم نصرت بھٹو کو سڑکوں اور جیلوں میں ٹھوکریں کھانے سے کی کیا ضرورت تھی؟ بینظیر بھٹو کیوں میدان میں کودتی؟
اگر نواز شریف کے جیل جانے کے بعد ان کے قریبی ساتھی، چوہدری برادران، چوہدری نثار سمیت اہم لوگ بلوں میں جاکر نہ چھتے، الگ جماعتیں نہ بناتے تو بیگم کلثوم نواز ، جس کا سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں، کیوں گھر چھوڑ کر چنگھاڑتی ہوئی باہر نکلتی؟؟
ملک، معاشرے، ماحول، حالات کو خوابوں خیالوں کی نظر سے دیکھنا، اور حقائق کا سامنا کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ جس حال میں بھی۔ اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دیکر، جیلوں کی سعوبتیں برداشت کرکے بعد بھی ، ان کے بچے میدان عمل میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہوں، عوام ان کا ساتھ دے رہے ہوں تو "مورثی سیاست” کے نام لیکر نفسیاتی طور پر ان پر حملہ آور ہونے کو کیا کہا جا سکتا ہے؟
یہ الگ بات ہے کہ ان کی جماعتوں کے طریقہ کار پر بات کی جا سکتی ہے، طریقہ حکمرانی پر بات، اور تنقید کی جا سکتی ہے۔اور جمہوری معاشروں میں یہ انتہائی ضروری ہے۔ لیکن عذابوں، عقوبتوں کے سمندر پار کر کے آگے سفر جاری رکھنے کی خواہش رکھنے والوں کو "مورثی سیاست” کے نام پر نشانہ بناکر، خود کو روشن خیال، ترقی پسند، مورثیت کے مخالف ثابت کرنے والے دوستوں کو نیک نیتی کے ساتھ زمینی حقائق کو دیکھنا ہوگا۔
اور ان سیاستدانوں کا ساتھ دینے پر عوام کو برا بھلا کہنا، اپنا غصہ عوام کو جاہل ثابت کرنے پر نکالنا ، حالات کو دیکھنے کی حقیقت پسندانہ نظر نہیں۔
فیض احمد فیض کہتے ہیں،،،
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی