کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ہم کسی کو اسٹیل ملز کی زمین اور اس کے اثاثے ہتھیانے نہیں دیں گے۔ اسٹیل مل سے ملازمین کو نکالنے کے پس پشت موجودہ نااہل، نالائق اور سلیکیٹیڈ حکومت کا 19 ہزار ایکڑ زمین جس کی قیمت ہزاروں روپے ہے اس کو اپنے اے ٹی ایم کو دینا ہے۔ اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی نجکاری ہے اس کی تحقیقات ہونا چاہیے۔ اسٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا، ریلوے سمیت دیگر قومی اداروں کے متعلق جو بھی فیصلہ کرنا ہوگا اس کو سی سی آئی کے اجلاس میں رکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے، نالائق، نااہل اور سلیکٹیڈ حکومت اور ان کی وفاقی کابینہ اس طرح کے فیصلے نہیں کرسکتی۔

ہم اسٹیل مل کے مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبائی کابینہ کے 4 ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو وفاق سے بات کرے گی جبکہ خود وزیر اعلیٰ سندھ بھی آئندہ ایک سے دو روز میں وفاقی حکومت کو ان مزدروں اور اسٹیل مل کے حوالے سے خط لکھیں گے۔ سندھ حکومت اسٹیل مل چلانے کی استدعات رکھتی ہے اور ہم نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بھی ان کو یہ آفر دی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز اپنے دفتر میں اسٹیل ملز کے برطرف ملازمین کی بنائی گئی سپریم کونسل کے عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی، اسٹیل مل کی تمام یونینز کے عہدیداران اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز 12 گھنٹوں تک ہزاروں کی تعداد میں مسافر کراچی اور اندرون ملک ٹرین سروس بند ہونے کے باعث پھنسے رہے اور اسٹیل مل کے 4544 برطرف ملازمین احتجاج کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت کی بے حسی کا عالم یہ تھا کہ ان کے کان تک جوں بھی نہیں رینگی۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم برطرف ملازمین اور ان کی سپریم کونسل کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہماری اپیل پر ریلوے ٹریک پر دھرنا ختم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان برطرف ملازمین سے کمیٹی بنانے کا وعدہ آج پورا کردیا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ نے کابینہ مجھ سمیت 4 ارکان جس میں سید ناصر حسین شاہ، مرتضیٰ وہاب اور وقار مہدی شامل ہیں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور اب یہ کمیٹی ان برطرف ملازمین اور اسٹیل ملز کے اشیو پر وفاق سے بات کرے گی۔

اس کے علاوہ ہم نے ان برطرف ملازمین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم کسی صورت اس غیر قانونی برطرفیوں کو قبول نہیں کریں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ اسٹیل ملز کے خسارے کی اصل وجہ 6 سال قبل جب اسٹیل ملز 64 سے 65 فیصد پیداوار شروع کرکے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تھی اور اس کا خسارہ ختم ہورہا تھا کہ اچانک گیس کی فراہمی بند کرکے اس مل کو ایک بارپھر بندش سے دوچار کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 17 ارب کے ایس ایس جی سی کے واجبات کو جواز بنا کر اسٹیل مل کو بند کرنے والوں نے اب تک 50 ارب سے زائد ملازمین کی تنخواہوں کے لئے دئیے لیکن انہوں نے 17 ارب کے واجبات ادا نہیں کئے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کے بعد ایک آرڈنینس اور بعد ازاں اسمبلی سے منظوری کے بعد ایک قانون پاس کیا ہے کہ کرونا کے دوران کسی بھی ملازم کو ان کی نوکری سے نہیں نکالا جاسکے گا اور وفاقی حکومت کی جانب سے کرونا کے دوران 4500 سے زائد ملازمین کو برطرف کرنا بھی اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیل مل پر مافیا کی نظریں ہیں۔ وہ اس کی زمین کو ہڑپ کرنا چاہتی ہیں اور اسٹیل مل سے ملازمین کو برطرف کرنے کے پس پشت بھی نقصان یا خسارہ نہیں بلکہ اس کی زمین کو موجودہ حکومت کو اپنے اے ٹی ایم کو دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر وفاق کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم اسٹیل مل کی زمین کو کسی کو ہڑپ نہیں کرنے دیں گے کیونکہ یہ زمین سندھ حکومت کی ہے اور اس نے یہ زمین اسٹیل مل کے لئے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نواز شریف کے دور حکومت میں بھی سندھ حکومت کی جانب سے خط لکھ کر واضح کیا تھا کہ سندھ حکومت اسٹیل مل خود چلا سکتی ہے اس لئے اسے سندھ حکومت کے حوالے کیا جائے اور آج بھی سندھ حکومت اسٹیل مل لے بھی سکتی ہے اور چلا بھی سکتی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ آج میں اسد عمر کا انتظار کررہا ہوں، جس نے خود اپنی تقریر ان ملازمین سے ریکارڈ کروائی تھی کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور اس نے اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالا تو میں حکومت کے نہیں بلکہ اسٹیل مل کے ملازمین کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایم کیو ایم  سے بھی پوچھتے ہیں کہ جو کراچی اور سندھ کا دعوی کرتی ہے وہ اس وقت کابینہ میں کیوں خاموش رہی جب ان ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کئے گئے تھے۔ ہم جی ڈی اے والوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ جب کراچی اور سندھ کے لوگوں کو ان کی نوکریوں سے نکالا جارہا ہے تو ان کے وفاق میں بیٹھے وزراء اور ارکان اپنا موقف کیوں عوام کے سامنے نہیں لارہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اس معاملے پر خاموشی کی بجائے وفاق سے استعفیٰ دیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سندھ کے عوام کا معاشی قتل عام کررہی ہے اور ایم کیو ایم اور دیگر وفاقی حکومت کی حلیف جماعتیں کو اپنے آپ کو اس شہر اور صوبے کی دعویدار بنتی ہیں وہ کیوں  خاموش رہ کر وفاق کے ہاتھ مضبوط کررہی ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ میں بحثیت وزیر اس بات کا برملا اعلان کرتا ہوں کہ اگر وفاقی حکومت نے اسٹیل مل کے ملازمین اور ان مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا تو میں ان برطرف ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری درخواست پر ان برطرف ملازمین نے احتجاج روک دیا لیکن ہم ان کے مسائل حل نہ ہوئے تو احتجاج سے نہیں روک سکیں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی نجکاری ہے اور اس کی تحقیقات ہونا چاہیے کہ گذشتہ 30 برسوں میں جب جب اداروں کی نجکاری ہوئی اس سے کون سا قرضہ اترا ہے یا کون سی ترقی ہوئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نجکاری تباہی ہے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اداروں کو خسارے سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیے تو بے شک نجی انتظامیہ کو لے آئیں لیکن کسی کو قومی اثاثے دینا ڈکیتی کے مترادف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کو بند کرنے اور اس کے بعد اس بند مل کو شروع کرنے کی بجائے 6 سال تک اس کو بند کرکے اربوں روپے لگانے کے ذمہ دار کون ہے اس کی نیب تحقیقات کرے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیل مل 6 سال بند رہی اس کے ذمہ دار ملازمین نہیں بلکہ حکومت ہے۔ اسٹیل مل کی زمین کے حوالے سے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ یہ زمین ہم نے ادارے کے تحت دی تھی اور اس کو ادارے کے تحت واپس لیں گے اور اگر کوئی عدالت میں جاتا ہے تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری روزگار فراہم کرنا ہے اور اگر عدلیہ کے کہنے پر ریاست بے روزگار کررہی ہے تو وہ عدلیہ کے تمام فیصلوں کو بھی مانے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here