قاضی آصف
پی ڈی ایم اپنی احتجاجی تحریک کے ایکسیلیٹر پر پائوں رکھے ہوئے ہے۔حکومت کا موقف کہ، کورونا ہے، جلسے کرنے نہیں دیں گے۔ نواز شریف کی والدہ ماجدہ کا انتقال، شہباز شریف اور حمزہ کی پیرول پر رہائی۔ آصف علی زرداری ضیاء الدین اسپتال سے بلاول ہاوس اپنی بیٹی کی منگنی میں شرکت کی۔ بلاول بھٹو کورونا کی وجہ سے آئسولیشن میں ہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری ملتان کے جلسے سے خطاب کریں گی۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب تو سامنے نظر آنے والی سرگرمیاں ہیں ، لیکن اندرون خانہ ہو کیا رہا ہے؟ اور حتمی طور پر ہوگا کیا؟ ان سوالوں کے جواب کی کھوج سب لگا رہے ہیں۔وہ جو حکومت میں ہیں اور وہ جو حکومت میں نہیں، سب قدرے غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔
یہاں ایک اور بات یاد آ رہی ہے، رواں ہفتے ، مولانا فضل الرحمان ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال میں آصف علی زرداری کی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ بظاہر مزاج پرسی کی بات تھی۔ لیکن سابق صدر آصف علی زرداری، بار بار ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال میں داخل کیوں ہو رہے ہیں؟ جواب سادہ سا ہو سکتا ہے، بھائی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، اعلاج کیلئے ہی جاتے ہیں، اس میں کونسا فلسفہ ہے۔ بلکل ٹھیک ، مان لیا، یہ بھی درست ہے یہ جو عام بات کی جا رہی ہے کہ عدالتوں میں پیش ہونے سے بچنے کیلئے اسپتال داخل ہوجاتے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے۔
سابق صدر کے اسپتال داخل ہونے کی اور وجوہات کے بارے میں جو اطلاع ہے اس پر بعد میں بات کریں گے۔ فی الحال اس سوال پر تھوڑا سا غور کرلیں کہ بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز، فضل الرحمان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت دسمبر یا جنوری میں چلی جائیگی، اور اس حد تک اطمینان سے کہہ رہے ہیں، ان کے پاس کیا پیغامات ہیں؟ وہ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ رہے ہیں؟
اس حوالے سے اطلاعات یہ آ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت شاید زیادہ مہینے نہ چل پائے۔اب معاملہ اور کچھ نہیں، فقط پی ڈی ایم کی جماعتوں کا آپس میں متفق ہونا ہے۔ ان کے سامنے جو تجاویز رکھی گئی ہیں، جن معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے، ان پر پی ڈی ایم میں موجود بڑی جماعتوں کا متفق ہونا ہے۔
مریم نواز نے جو گلگت بلتستان میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کچھ لوگوں کے توسط سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تو وہ کچھ غلط بھی نہیں تھیں۔ اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم سے رابطے میں ہے۔با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کا ڈاکٹر ضیاء الدین منتقل ہونا اس سلسلے کی کڑی ہے۔ پی ڈی ایم سے بات چیت وہیں چل رہی ہے۔ گذشتہ دنوں لاڑکانہ جاتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن اسی اسپتال میں آصف زرداری سے ملنے گئے تھے۔اورسیاسی معاملات اور پیش رفت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔
یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ فوری طور پر عمران خان کی حکومت سے ہاتھ ہٹانے کیلئے تیار ہے۔ لیکن پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں کے شرائط بھی بہت مشکل ہیں، جن پر بات چیت جار ی ہے۔حکومت خود کو بچانے کیلئے اپنے پتے کھیل رہی ہے تو پی ڈی ایم دبائو بڑھانے کیلئے جلسوں سے پیچھے ہٹنے اور اسٹبلشمنٹ کو نشانہ نہ بنانے پر تیار نہیں۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتو ں میں کیا مسئلہ ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ پی ڈی ایم کے قریب ترین ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے ساتھ یہ شرط بھی رکھتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے دو بڑے استعفیٰ بھی دیں۔ جبکہ پیپلزپارٹی کا موقف مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل تک نہ جائیں۔ آئینی طور پر ان ہائوس تبدیلی لائی جائے اور سیاست میں اسٹبلشمنٹ کا کردار ختم کیا جائے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دونوں بااثر افسران کی استعفے کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا کیا موقف ہے۔ مولانا صاحب بھی مسلم لیگ ن کے موقف قریب ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں۔
پیپلزپارٹی اپنا موقف رکھے ہوئے ہے کہ سسٹم کو ڈی ریل نہ کیا جائے۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ عمران خان کو اسمبلی میں اکثیریت نہیں، ایک مخلوط حکومت بنائی جائے جو اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات کرائے۔ جو جیتے وہ حکومت بنائے۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں اسٹبلشمنٹ قلیدی کردار پیپلزپارٹی کو دینا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے حوالے سے ان کی تحفظات ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی بھی سولو فلائیٹ کرنے کے بجائے، پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے۔اس لئے اسٹبلشمنٹ سے ہونے والے مذاکرات سے ایک دوسرے کو واقف رکھ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالات کو بھانپ کر عمران خان اپنے اتحادیوں کو منانے، ان کی رنجشیں ختم کرنے میں متحرک ہو گئے ہیں اور خود لاہور جاکر چوہدری برادرا ن سے ملے۔ اور اپنے ایک وفاقی وزیر کو سندھ میں پی ٹی آئی اور ان کے اتحادیوں سے ملنے کیلئے بھیجا ہوا ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ جس دن پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک بات پر متفق ہوگئیں، عمران خان کی حکومت نہیں رہے گی۔اس لیئے ہی بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اور مولانا صاحب بڑے اعتماد سے عمران خان حکومت جانے کی ڈیڈ لائن دے رہیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اب بال پی ڈی ایم کی کورٹ میں، انہیں ہی فیصلہ کرنا ہے۔
هي ته چٽو پٽو پٽ تي رکيو آهي ته پي ڊي ايم ڪنهن به پاسي کان ۽ پاليسي تحت عوامي ۽ ملڪي مفادن تحت جڙي ئي ڪونهي. هر ڪنهن جو موقف ڌار ڌار آهي. ذاتي مفاد بس ذري گهٽ ساڳا آهن. جنهن انهن کي ان ڪچي ڌاڳي سان ڳنڍي رکيو آهي. عمران خان جي ڌرڻي سبب نواز شريف جي مضبوط حڪومت به لهرن ۽ لوڏن سان گڏ و گڏ جيتري پريشان هئي ان جي ڀيٽ ۾ عمران نيازي جي حڪومت لاءِ 11 جماعتون ان جي ڏهين پتي جيتري بي پريشاني پئدا ڪرڻ ۾ ناڪام ويون آهن. ان جو واحد سبب آهي انهن اندر بنيادي اشو “عوامي ۽ ملڪي مفاد جي کوٽ سان پاڻ ۾ هڪ موقف تي نه بيهڻ. جيترقدر آصف زرداري صاحب جي اسپتال حوالگي آهي تنهن کي جيڪڏهن غير سياسي چئجي ته پوءِ آصف صاحب جي سياسي بصيرت تي شڪ پئدا ٿيڻ واجب ٿي ٿو پوي. هن کي خاڪي پنبڻين مان ڳاڙهي اک جي تپش سهڻ جي سگھ آهي ئي ڪونه. ٻيو ته ان پنبڻين جي ڇانو هيٺ رکيل ڪرسي تي ڪير ٿو ويهي سگهي تنهن جي پي ڊي ايم ۾ ڪنهن ٻئي کي ڪل آهي ئي ڪونه.
مونکي اوهان جي ۽ پروفيشنل مصروف صحافي دوستن جي تحريرن توڻي وڊيو لنڪس تان اها خبر ٿي ملي ته پي ڊي ايم کي ڪي پيغام ڏنا پيا وڃن. پر اهو ڪير به ڪونه ٿو ٻڌائي ته پيغامبر ڪير آهي ۽ ڪنهن جو پيغام آهي ۽ ڪهڙو آهي. باقي حڪومت ڊهڻ جون ڳالهيون ته عمران نيازي به پنهنجي ڌرڻي ۾ زور شور سان ڪندو هو ته هيئنر وئي ڪ هيئنر. ڪڏهن ڪڏهن ائين به ٿيندو آهي ڪنهن غير يقيني صورتحال ۾ ڇڪو هنيو ويندو آهي.
پي ٽي آئي جا اتحادي موقع پرست آهن. هنن کي اقتدار تائين پهچڻ لاءِ وري به ڪنهن گهڻ ڌري ڌر سان اتحاد ئي ڪرڻو پوندو. تنهن ڪري اڳي جيئان رسڻ پرچڻ جو رنگ ڍنگ رکيو اچن. پي ڊي ايم ۾ سياسي اختلاف کان اڳتي ذاتي ۽ پارٽي اختلاف اهم نوعيت جا آهن. پي ٽي آئي جي حڪومت مسلم ليگ (ن) کي نشاني تي رکيو اچي. ٻين ڏانهن قدري نرم رويو آهي. اڄ جي صورتحال ۾ اهو چئي سگهجي ٿو ته عمران نيازي جي حڪومت ڊهندي ڏسڻ ۾ ڪونه ٿي اچي. ڪوڙ ۽ ڪپت جي عمارت بلند ٿيندي پئي وڃي…..