سپریم کورٹ آف پاکستان بھی کیا یاد کرے گا کہ، اس ملک میں ان کے دیئے گئے احکامات کی کس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ ان کے احکامات کے کس طرح نئے توڑ نکالے جاتے ہیں۔ پیسے بٹورنے کے چکر میں کس طرح ادارے اور لوگ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، دو ہزار سولہ، دو ہزار سترہ اور اب اگست دوہزار بیس تواتر کے ساتھ احکامات دیتا آیا ہے کہ کراچی میں ایڈورٹائز منٹ کے بل بورڈ، ہورڈنگز چاہے وہ عوامی ملکیت پر لگے ہوں یا نجی ملکیت پر، بلا تفریق ہٹائے جائیں۔ کیونکہ انسانی جانوں کو خطرہ ہے۔ نگاہوں کی آلودگی، گاڑیاں چلانے والوں کیلئے بھی مناسب نہیں کہ، ان کی نظریں وہاں اٹھ جاتی ہیں، کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔

لیکن اس بہت ہی منافع بخش کاروبار کو سپریم کورٹ کے حکم پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟  ایڈورٹائز منٹ مافیا نے سپریم کورٹ کے احکامات کو روندتے ہوئے، اسکائی سائن کے نام پر نیا طریقہ اختیار کیا۔ کہ اب 
محض چند فوٹوں کے ہورڈنگز کیا، پوری آٹھ، دس منزلہ عمارتوں کو ایڈورٹزمنٹ کور میں لپیٹ کر بند کردیا گیا۔ اب پوری کی پوری عمارتیں ایڈورٹیزمینٹ پینافلیکس میں لپیٹ لیا گیا۔ اب جو سپریم کورٹ نے کرنا ہے کر لے۔ اس فقط تجارتی عمارتیں نہیں، رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان کی گیلریز، کھڑکیاں، جالیاں سب بند۔

عمارت کے رہائشی کچھ نہیں کر سکتے۔ گھروں میں نہ تازہ ہوا آ سکتی ہے نہ سورج کی روشنی، نہ نگاہیں باہر ہی کچھ دیکھ سکتیں۔شہر کی نئی ایڈورٹزمنٹ پالیسی، سورج کی روشنی بند، تازہ ہوا بند،باہر دیکھنے کی آزادی سلب۔ اس حوالے سے سب سیزیادہ خراب صورتحال کینٹونمنٹ علاقوں کی ہے۔ اب پورا شہر یہ عذاب بھگت ر ہا ہے۔کوئی سپریم کورٹ کو بتائے، آپ کے حکم کا کتنا ہولناک توڑ نکالا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here