گلگت: مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے میرے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے رابطے کیے ہیں مگر میرے ساتھ براہِ راست کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں مریم نواز نے کہا کہ میں ادارے کے مخالف نہیں ہوں مگر سمجھتی ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہو گا۔ فوج میرا ادارہ ہے، اسٹیبلشمنٹ نے مذاکرات کے لیے ان کے اردگرد موجود بہت سے لوگوں سے رابطے کیے ہیں، ہم ضرور بات کریں گے لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر غور کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست بند گلی کی جانب نہیں جا رہی۔ ہم تو جہاں جا رہے ہیں، وہاں ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے اور وہ ہے ووٹ کو عزت دو اور ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ۔ اب یہ بند گلی نہیں ہے، اب یہی راستہ ہے، اور یہ راستہ آئین و قانون کی بالادستی کی جانب جا رہا ہے۔

کراچی واقعے کی رپورٹ کے حوالے سے مریم نواز نے کہا کہ عوامی ردِ عمل کا جواب دینا آئین کے مطابق اداروں کا کام نہیں منتخب حکومت کا کام ہے۔ اداروں کا کام اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھانا ہے ناکہ جذبات دکھانا، پاک فوج کی جانب سے جاری بیان سے عوام کو جواب نہیں ملے، مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ قوم کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ جذباتی افسران نے عوامی دباؤ کا ردِعمل دیتے ہوئے یہ کیا۔ کون سا عوامی ردِ عمل تھا، وہ جعلی لوگ جنھوں نے مقدمہ درج کروایا اور پھر مدعی ہی بھاگ گیا۔اگر واقعی کسی نے یہ جذبات میں آ کر کیا ہے تو یہ تو ادارے کے لیے اور پاکستان کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔

رہنما (ن) لیگ کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان فارمولے کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گی لیکن جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔
اس حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے۔ اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہو گا ، نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔ میری نظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ اس لیے نہیں ہیں کیونکہ میں انھیں سیاسی لوگ نہیں سمجھتی۔ میرا اور میری جماعت کا مقابلہ اس سوچ کے ساتھ ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا پاکستان سے خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انھیں معافی دینے کے مترادف ہوگا جو میری نظر میں جائز بات نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here