قاضی آصف

آج کراچی سٹی کورٹ میں ، کیپٹن صفدر کے خلاف  بنایا جانے والا مزار قائد کی بے حرمتی اور ایک شخص کو جا ن سے مارنے کی دھمکی  کا مقدمہ جھوٹا قرار دے کر ، بی کلاس کردیا گیا۔
پولیس نے استغاثہ کے اعتراضات دور کرکے حتمی چالان عدالت میں جمع کرادیا جس میں پولیس نے تفتیش کے بعد مقدمے کو جھوٹا قراردے دیا۔
حتمی چالان میں پولیس نے کہا ہے کہ کال ڈیٹا ریکارڈ کے مطابق مدعی مقدمہ ، واقعے کے وقت مزار قائد میں موجود نہیں تھا۔ مزار قائد کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی مدعی مقدمہ موجود نہیں ہے۔ مریم نواز کی مزار قائد پر حاضری کے وقت مزار، عام شہریوں کیلئے بند تھا۔
پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ مزار قائد سیفٹی اینڈ مینٹیننس  آرڈیننس ان کے دائرے میں نہیں آتا۔ اگر ایس ایچ او چاہے مزار قائد آرڈیننس کے لئے براہ راست علیحدہ کیس داخل کر سکتا ہے۔ 

جس کے بعد پراسیکیوشن نے پولیس چالان سے اتفاق کرتے ہوئے چالان کو بی کلاس کردیا۔
یہ وہ کیس تھا جس نے داخل ہونے سے پہلے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی تھی۔ مبینہ طور پر آئی جی سندھ پولیس کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔ مبینہ طور پر ان پر یہی مقدمہ  درج کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا۔ بعد میں کیپٹن صفدر گرفتار ہوئے اور پھر عدالت سے ضمانت پر رہا ہو گئے۔
اس صورتحال نے ملک میں ہیجان برپا کردیا تھا۔  کئی سوالات اٹھے ۔سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا تھا کہ ان کو وزیراعلیٰ سندھ نے  بتایا ہے کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری میں سندھ پولیس یا حکومت سندھ کا کوئی کردار نہیں۔ آئی جی سندھ پر دبائو ڈال کر یہ مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔ ایک ہی دن میں اس پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاھ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کھل کر پریس کانفرنسیں کی تھی۔
جس معاملے پر اتنا طوفان  کھڑا ہوا، وہ تو حقیقت میں کچھ تھا ہی نہیں۔ ایک معمولی بات پر ایک صوبے کے آئی جی  پولیس کو اس حالت میں لایا گیا کہ دوسرے دن سندھ پولیس کے تمام افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں دے دیں۔ لیکن بعد میں آرمی چیف کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کیلئے یقین دہانی کے بعد چھٹی کی درخواستیں مشروط طور پر واپس لی گئیں۔
عدالت میں پولیس کی جانب سے اس کیس کو ہی جھوٹا ثابت کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کئے چالان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ مقدمہ داخل ہونے سے پہلے سندھ پولیس کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد پولیس نے کوئی دبائو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ جس طرح اس مقدمے کو ہائی پروفائیل بنایا گیا تھا، جس کسی کا بھی مقصد محض کیپٹن صفدر کو گرفتار کرانا تھا، وہ مقدمہ سندھ پولیس نے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا۔
کیپٹن صفدر کی گرفتاری جس کی بھی خواہش ہو، جس کی بھی مرضی ہو، اس کیلئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ محض ایک مقدمہ داخل کرنے کیلئے کبھی کسی ایس ایچ او ، یا ایس ایس پی کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک نہیں کیا گیا جس طرح کا سلوک آئی جی پولیس سندھ کے ساتھ روا رکھا گیا۔
مقدمے داخل ہونے سے چند گھنٹوں کے اندر حکومت سندھ نے بغیر کسی رکھ رکھائو، اگر ، مگر کے مسلم لیگ ن کی قیادت کو  اصل صورتحال سے آگاہ کردیا   کہ اس گرفتاری میں ان کا کوئی کردار نہیں بلکہ وہ بے بس ہیں، یہاں تک کہ ان کی حکومت کا آئی جی پولیس کے ساتھ بھی نا روا سلوک رکھا گیا۔ یہ  صورتحال جس نے بھی   پیدا کی، حکومت سندھ نے خود کو  اس سے  الگ کرکے واضح طور پر  کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے مخالفت میں کھڑا کردیا۔
ظاہر ہے قانون کے مطابق اس کی تفتیش بھی سندھ پولیس کو ہی کرنی تھی، جس کے آئی جی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ تو وہی پولیس اب کسی کا دبائو کس طرح قبول کر سکتی تھی؟یا اب کوئی دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں بھی تھا؟؟
آج کے مقدمے میں جو کچھ ہوا، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سندھ پولیس نے اس فسانے کو ہی جھوٹا قراردے دیا جس کی وجہ سے ان کے آئی جی کو بھگتنا پڑا تھا۔ ایک طرح سے سندھ پولیس نے  قانونی طور پر اپنا، ایک حد تک بدلہ لے لیا۔
اس مقدمے کے واقعے کے پیچھے جو بھی قوتیں تھیں ان کو جواب دے دیا۔ جب مقدمہ ہی جھوٹا تھا تو اس کو داخل کرنے کیلئے آئی جی پولیس کی اتنی تضحیک کیوں کی گئی؟ ۔
اس ضمن  یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ  سندھ حکومت نے بھی کسی بھی طرف سے کوئی بھی دبائو قبول نہیں کیا اور واضح طورپر خود کو پی ڈی ایم ،یا مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ کھڑا کردیا۔
اس مقدمے کو جھوٹا قرار دینا، معمولی بات نہیں، ایک اہم پیغام دیا گیا ہے۔ اس کے اثرات فوج کی طرف سے ہونے والی تفتیش اور صوبائی وزارتی کمیٹی کے فیصلوں پر بھی مرتب ہونگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here