قاضی آصف
جمعیت علماء اسلام کے مختلف رہنمائوں، خاص طور پر مولانا فصل الرحمٰن نے گذشتہ کچھ دنوں سے اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے سخت لہجہ اختیار کیا ہوا ہے۔ خاص طور پر یہ بیان کہ اگر مولانا صاحب کو نیب نے طلب کیا تو کورکمانڈر اور آرمی چیف کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جائیگا۔ اور مولانا صاحب کا خود کا بیان کہ اگرہمیں زیادہ تنگ کیا گیا توجو حشر افغانستان میں آمریکہ کا ہوا، تمہارا اس سے بھی برا ہوگا۔ جے یو آئی کی قیادت کی جانب سے اس قسم کے بیانات کے بعد نیب پشاور کی جانب سے مولانا کی طلبی کا نوٹس فی الحال واپس لے لیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں بہت سے لوگوں کی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بہت لوگ خوش ہوئے کہ، کوئی ایسی قوت بھی ہے جو اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے۔ اور اپنی بات منواتی ہے۔ اس بات سے جو لوگ خوش ہوئے تو یہ ان کا حق ہے لیکن بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات تشویش کا باعث بھی ہے۔ تشویش کی وجوہات مختلف ہیں، لیکن یہ وجہ نہیں کہ جے یو آئی نے اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا تو، کوئی اسٹبلشمنٹ کا غم ہے کہ ان سے اس طرح دھمکی آمیز بات کیوں کی گئی؟ بلکہ اس لیئے کہ ایک مذہبی جماعت اس طرح طاقتور ہو گئی ہے کہ آرمی چیف کے دفتر یا کورکمانڈر کے دفتر کے باہر مظاہرہ کرے گی اور امریکہ سے بھی برا حشر ہوگا۔ گوکہ اس صورتحال ذمہ دار بھی خود اسٹبلشمنٹ ہی ہے جس نے ہمیشہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے مذہبی جماعتوں کی حمایت کی ہے بلکہ ان کیلئے راستے صاف کئے ہیں۔
جے یو آئی کا کردار جمہوری رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی اساس، بنیاد مذہبی سیاست رہا ہے۔ ان کے پاس مدرسوں میں اتنی افرادی قوت ہمہ وقت تیار رہتی ہے کہ ہزاروں لوگ چند گھنٹوں میں کہیں بھی جمع ہو سکتے ہیں۔ اور اس مجمعے کو جو احکامات دیئے جائیں گے وہ مذہبی فرض سمجھ کر ادا کردیں گے، اس میں ان کو اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں رہے گی۔ اس کا تجربہ ہماری اسٹبلشمنٹ افغانستان میں کرا بھی چکی ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب ملک کے بڑے فیصلوں کی قوت سیاسی ، جمہوری جماعتوں سے منتقل ہو کر مکمل طور پر مذہبی جماعتوں کے پاس جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس یہی بات تشویش کا باعث ہے۔ وہ مذہبی جماعتیں جن کا اپنا ایک ایجنڈا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جے یو آئی جمہوری تحریکوں میں سیاسی جمہوری جماعتوں کے ساتھ رہی ہے لیکن یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ اتنے طاقتور نہیں ہوجاتے ہیں کہ اسیمبلی میں اکثریت حاصل کرلیں۔یا ان کو کلی طور پر اقتدار مل جائے ،تو ان کے تیور وہی ہونگے جو افغانستان میں تھے۔یہ ایک حلقے کی رائے ہے ہو سکتا ہے ان کو پروگرام مختلف ہو۔
اسٹبلشمنٹ اس صورتحال کو سیاسی جماعتوں سے بارگننگ کے طور پر بھی استعمال کر سکتی ہے کہ اگر ان سے بات چیت نہیں کی گئی، یا کچھ لو کچھ دو کی صورتحال نہیں بنتی تو یہاں تمام مذہبی جماعتیں موجود ہیں وہ اقتدار ان کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، تمام تر صورتحال کے باوجود ، ہر بازی پارلیمنٹ میں کھیلنا چاہتی ہیں۔ جبکہ جے یو آئی کا شروع دن سے موقف رہا ہے کہ اسیمبلوں میں حلف نہ لیں، اور استعفے دے دیں۔ سب کچھ الٹ پھلٹ دو۔ یہ بات سیاسی جماعتوں کے وارے میں نہیں آتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، ان کے بیٹے، مریم نواز سمیت ان کی صف اول کی لیڈر شپ، پیپلزپارٹی سے آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، خورشید شاہ، آغا سراج، شرجیل میمن سمیت جیل میں رہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ سمیت ان کے بہت سے رہنما نیب کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ پارلیمنٹ، جیسی بھی ہے، اس سے یکسر استعفیٰ دینے کے فوری حق میں نہیں۔وہ جو گیم بھی ہے وہ سیاسی طور پر کھیلنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹبلشمنٹ سے ناراضگی وقتی ہو سکتی ہے۔ نظام کی جمہوری ترقی پسند، تبدیلی ان کے پروگرام میں شاید نہ ہو۔ لہٰذیٰ ان کے بیانات اور عمل سے جمہوری حلقوں میں خوشی نہیں، تشویش ہے۔ کہ اب ملک میں فیصلہ کن کردار سیاسی جماعتوں کی جگہ مذہبی جماعتیں نبھائیں گی۔ وہ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے، سب کچھ الٹ پھلٹ لیں گے۔ اگر یہ عالمی ایجنڈا نہیں ہے تو، بحث دوسری طرف چلی جائیگی۔ لیکن ہمارے خیال میں سیاسی جماعتوں کو اپنے پتے بہت احتیاط سے کھلینے چاہیئیں، فیصلہ کن کردار مدارس نہیں، پارلیمنٹ کو ادا کرنا چاہیئے۔ اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے پارلیمینٹ کی سپرمیسی کو قبول کرنا چاہیے ورنہ ملک ایک اور افغانستان کی شکل نہ اختیار کر لے۔