قاضی آصف
بیس ستمبر کی رات اسلام آباد میں اے پی سی کی تیاری ہو رہی تھی، تو کراچی کے پیڈسٹیرین برجز کی ریلنگس، انڈر پاس اور شہرکی دیواروں پر بینرز لگائے جارہے تھے اور اسپرے چاکنگ ہو رہی تھی ، نئے صوبے کے مطالبے، جنوبی سندھ صوبہ کے قیام، کوٹہ سسٹم کے خاتمے ، کراچی کے حقوق اور دیگر نعرے لکھے جا رہے تھے۔ اور یہ کام ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم حقیقی، جماعت اسلامی اورپاک سرزمین پارٹی کی جانب سے ہو رہا تھا۔ جماعت اسلامی نے ‘حقوق کراچی’ کے سلسلے میں ۲۷ ستمبر جبکہ ایم کیو ایم نے ۲۴ ستمبر کو ریلیوں کا اعلان کیا ہواہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ حقوق کراچی کی بات کرنے والی ان تمام جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات سے پہلے کراچی کے حقوق یاد آئے ہیں۔ اس سے قبل کسی کو کوئی خیال نہیں تھا۔ اور یہ بھی ‘خوبصورت’ اتفاق ہے کہ کراچی حقوق کا خیال ان جماعتوں کو آیا ہے جو گذشتہ پینتیس سالوں سے بلا شرکت غیرے، مکمل اختیار ات کے ساتھ کراچی پر حکمران، قابض، آقا ، بن کر رہی ہیں۔ ۱۹۷۹ سے جماعت اسلامی سے لیکر ۲۰۲۰ ء ایم کیو ایم تک۔ انہوں نے باری باری کراچی شہر پر حکمرانی کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فقط ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو ہزار ارب روپے حاصل کیئے۔ وہ کراچی کے کس کونے میں لگے؟ اس کا جس کو پتہ ہو، ہمیں بھی آگاہ کرے۔کیونکہ ایم کیو ایم نے پرویز مشرف سے ایک شرط منوائی تھی کہ ان کو دیئے جانے والے فنڈز کی آڈٹ نہیں ہوگی۔ یہ قابل یقین بات نہیں لیکن ایک حقیقت ہے۔
یہ جو سابق میئر کراچی وسیم اختر اکثر اختیارات نہ ہونے کی شکایت کرتے رہے۔ یہ شہر میں کتنے با اختیار رہے ہیں، اس کیلئے کراچی کی گذشتہ ۳۵ سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کو سندھ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ یہ وہی بلدیاتی نظام تھا جس کے تحت، عبدالستار افغانی، ڈاکٹر فاروق ستار میئرز رہے۔ تو کیا وہ بے اختیار میئر تھے؟ ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور آفتاب شیخ نے بلدیہ حیدرآباد میں پھر اتنا عرصہ کیوں رہے؟ انہوں نے تو کبھی اختیارات کی کمی کی بات نہیں کی تھی۔ یہ وہ عرصہ تھا جب سیاہ و سفید کی مالک ایم کیو ایم تھی۔ کراچی کو بہتر سے بہتر کرنے میں کس نے رکاوٹ ڈالی تھی؟
سندھ میں یا وفاق میں جب بھی کوئی حکومت بنی وہ ایم کیو ایم کی حمایت سے بنی، اور پولیٹکل سائنس کے طالب علم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وفاق یا صوبہ سندھ میں وہی کچھ ہوتا تھا جو ایم کیو ایم چاہتی تھی۔ چاہے وہ مسلم لیگ نون، مسلم لیگ ق، پیپلزپارٹی کی حکومتیں ہوں۔ ہوا وہی ،جو ایم کیو ایم نے چاہا۔ تو اس وقت ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ یا قومی اسیمبلی سے ایسی کونسی قانونسازی کرائی گئی جو کراچی شہر یار حیدرآباد کی بہتری میں ہوتی؟ کراچی و حیدرآباد شہر بند کرانا ایم کیو ایم کیلئے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ اگر انہوں نے خصوصی فنڈز لیئے، تو وہ استعمال کہاں ہوئے؟ جب بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کسی بھی جماعت کی اتحادی حکومت بنی، سندھ کے وزیراعلیٰ کا عملی طور پر اختیار، کراچی اور حیدرآباد سے باہر تھا۔ یہاں تک کہ کوئی بھی وزیراعلیِٰ ہو، خاص طور پر کراچی میں کسی منصوبے کا فتتاح کرنے کاا ختیار بھی نہیں رکھتا تھا۔ اعتبار نہ آئے تو ان ادوار میں کراچی میں شروع یا مکمل ہونے والے منصوبوں کی تختیاں پڑھ لیں۔
اس دوران ایم کیو ایم حکومت میں بھی رہی تو شہر میں ہڑاتالیں، قتل گارتگری ، دہشتگردی بھی جاری رہی۔ یہ سب کون کروارہا تھا؟ جب کراچی شہر میں پتا بھی ایم کیو ایم کی مرضی کے علاوہ نہیں ہل رہا تھا، اور کروٹین کے پتوں پر ایم کیو ایم کے قائد کی تصاویر آ رہی تھیں۔ اس وقت کراچی کو بہتر سے بہتر شہر بنانے میں کس نے رکاوٹ ڈالی تھی؟ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم و صحت کو چھوڑیں، کے ایم سی کے انڈر میں کام کرنے والے اسکولز اور اسپتالوں، ڈسپینسریوں کا حال کیا تھا۔؟ کوئی مثالی اسکول یا ڈسپینسری ہے تو ایم کیو ایم بتائے۔ یہی حال کراچی کی ضلع کونسل کا بھی رہا ہے۔ وہاں سے ہر وقت کراچی کے مقامی سندھی بلوچ ہی منتخب ہوتے آئے ہیں، کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود کراچی کے گوٹھوں کا حال دیکھو تو رونا آتا ہے۔ کراچی کے مسائل حل نہ کرنے میں کے ایم سی اورکراچی ضلع کونسل برابر کے شریک ہیں۔
گذشتہ پینتیس سال کے پرآشوب دور میں کراچی میں جتنے بیگناہ شہری، دہشتگردی میں قتل ہوئے اتنے تو پاکستان ، ہندوستان کے ساتھ لڑی جانے والی تمام جنگوں میں لقمہ اجل نہیں ہوئے۔ اور جتنے اردو بولنے والے ایم کیو ایم الطاف اور ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان دشمنی میں جانوں سے گئے اتنے تو ہجرت کے وقت بھی قتل نہیں ہوئے تھے۔ ازیت، دہشت کی وہ مثالیں قائم کی گئیں جو پاکستان کی سرزمین نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔
کہتے ہیں یہ سب پرانی باتیں ہیں، ان کو چھوڑیں، چھوڑنے کو تیار لیکن کراچی کے مسائل ایک دن یا سال میں تو پیدا نہیں ہوئے۔ یہ کونسی سیاسی حکمت عملی ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہو، سندھ کی وحدت پر وار سے کم بات ہی نا ہو؟ ہر چھوٹی بات پر سندھ کی تقسیم، کراچی کو الگ کرنے کی باتیں ہوں۔ اردو بولنے والے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے نکال کر دوسرے کاموں پر لگا دیا گیا۔
سیاسی طور پر ان کی تربیت ہوتی تو بھی خراب بات نہیں تھی لیکن اردو بولنے والے نوجوانوں کے مستقبل تباہ کئے گئے۔ ایم کیو ایم بتائے گی کی کراچی میں سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے کتنے مراکز قائم کئے گئے؟ اپنے دور میں ایم کیو ایم نے کتنے اردو بولنے والوں کو روزگار سے لگایا ۔ کتنے مقابلے کے امتحان پاس کرکے سیکشن آفسر بنے؟ آفسر کیڈر میں آئے؟ پولیس میں میرٹ پر بھرتی کرائے۔؟ یہ اعداد و شمار جاری کرنے سے انہیں کس نے روکا ہے؟ عوام کو حقیقت بتائیں کہ انہوں نے اتنے لوگوں کو ان مقامات پر سرکاری سطح پر روزگار سے لگایا تھا؟ یا فقط جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عوام کو گمراہ کرنا ہے۔
یہ سب سے بڑی عوام دشمنی ہے کہ محض ووٹ کے حصول کیلئے ان کو نفرتوں کےراستوں پر لگا دیا جائے۔ اب بلدیاتی انتخابات قریب ہیں تو ایم کیو ایم تینوں گروپوں اور جماعت اسلامی کو حقوق کراچی یاد آ گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی روح میں شاونسٹ قوم پرست جماعت رہی ہے۔ اس جماعت نے مذہب کا لبادہ اوڑھے، چھوٹے صوبوں، مظلوم و محکموم عوام کی حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالہ اور غیرجمہوری قوتوں کی کاسہ لیسی کی ہے۔ قاضی حسین احمد جماعت کے وہ واحد امیر تھے جس نے اس جماعت کو جمہوری اداروں کے دشمن فورسز سے باہر نکال کر ایک سیاسی جماعت بنانے کی سعی کی تھی۔ لیکن ان کے بعد ایک بار پھر اس جماعت کو پرانی ڈیوٹی پر چھوڑ دیا گیا۔
یہ بھی قابل غور بات ہے کہ گذشتہ پینتیس سالوں میں کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ یونہی ہو رہا تھا یا کسی منصوبے کا حصہ تھا؟ کسی کی مرضی تھی کہ یہ شہر ایسا ہی رہے؟ ایم کیو ایم جو کچھ کر رہی تھی وہ اچانک اپنے حساب و مرضی سے تو نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ وہ جو کچھ کر رہی تھی وہ کسی آشرواد کے علاوہ ممکن ہی نہیں۔ بھتہ نہ ملنے پر تین سو زندہ انسانوں کو جلایا جائے اور کچھ بھی نہ ہو، یہ اتنی آسان بات تھی کیا؟ نہ سندھ کے دیگراضلاع میں ڈاکو راج بغیر منصوبے کے تھا ، نہ کراچی میں دہشتگردی بغیر کسی کی رضامندی کے تھی۔
تو ، اب جو حقوق کراچی کے نام پر باہر نکلے ہیں، یہ اپنی مرضی اور ہمت سے باہر نکلے ہیں؟ کراچی میں نسلی سیاست میں جماعت اسلامی مذہبی چوغے میں شامل رہی لیکن اس مرتبہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے ساتھ جماعت اسلامی بھی کھل کر نسلی نفرت کی سیاست میں کود پڑی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس خیبرپختون خواہ کی حکومت رہی، تو وہاں انہوں نے کونسا انقلاب بپا کردیا تھا؟ ان جماعتوں کے پاس نفرت اور نسلی سیاست کے کارڈ کے علاوہ کامیابی کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ان کے پاس کوئی اور پروگرام نہیں۔ وہ کراچی کو بہتر سے بہتر بنانے کے دعوے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں کیونکہ کل ہی ایم کیو ایم کا میئر اپنی مدت پوری کرکے گیا ہے۔
حقوق کراچی کے نام پر نکلنے والی ان نسل پرست جماعتوں کی کراچی کی عوام دشمنی میں کوئی کثر رہ گئی ہے وہ پوری کرنے نکلی ہیں۔ سندھ میں موجود بھائیچارے، باہمی برداشت واپنائیت جو موجود ہے، اس کو توڑنا ابھی باقی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ تمام جماعتیں، سندھ کی تقسیم کے نعرے کے ساتھ آگے نہیں آتیں، بلکہ ایک عوام اور کراچی دوست پروگرام کے ساتھ آتیں۔ لیکن ان کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے کہ ماضی میں یہ جماعتیں جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال ہوتی آئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کا کردار ابھی اصل قوتوں کی جانب سے تبدیل نہی ہوا۔ حقوق کراچی کے نام پر یہ پاکستان کے خلاف ایک فتنہ ہے، جس کو کراچی شہر سمیت سندھ بھر اور پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں، اور ناکام بنائیں گے۔اس میں ہر اول دستہ کراچی ، حیدرآباد کے اردوبولنے والے ہونگے۔