اسٹاف رپورٹر
کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ وہ خواب پورا نہیں ہوگا کہ کراچی کا روینیو اسلام آباد استعمال کرسکے، کیونکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے، ہمیشہ رہے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو نیب نے بلاوجہ طلب کیا ہے، آصف علی زرادری کی ہدایت پر کارکنان 17 اگست کو ان سے اظہارِ یکجہتی کے لیئے نیب آفس کے سامنے جمع نہیں ہوں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وہ ماضی میں بھی نیب مقدمات کا سامنا اکیلے ہی کرتے رہے ہیں، اب بھی کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی کا اجلاس برزو ہفتہ بلاول ہاوَس کراچی میں ہوا، جس کی صدارت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ طور کی۔
بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے دیگر رہنماوَں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں حصہ لیا۔ سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میاں رضا ربانی، لطیف کھوسہ، شیری رحمن، سید نوید قمر، نفیسہ شاہ ہمایوں خان، شازیہ مری، نواب یوسف تالپور، سعید غنی، جمیل سومرو، صادق عمرانی، وقار مہدی، ناصر حسین شاہ، منظور حسین وسان اور پیر مظہر الحق اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، نیئر حسین بخاری، فرحت اللہ بابر، فریال تالپور، فاروق ایچ نائک، قمر زمان کائرہ، علی مدد جتک، چودھری منظور، حیدر زمان قریشی، اعظم خان آفریدی، مخدوم جمیل الزمان، مولا بخش چانڈیو، نثار احمد کھڑو، چودھری لطیف اکبر، امجد اظہر ایڈووکیٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں حصہ لیا۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خاطاب کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے بتایا کہ اجلاس 6 نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھا، جن میں گلگت بلتستان کے انتخابات، پنجاب کی سیاسی صورتحال و تنظیمی معاملات، ملک میں حالیہ قانونسازی کے معاملات، کراچی کی صورتحال بالخصوص اٹارنی جنرل کے بیان کی روشنی میں ممکنہ صورتحال، نیب اور ہیومن رائیٹس واچ کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر صورتحال کے ساتھ ساتھ 17 اگست کو سابق صدر آصف علی زرداری کی نیب طلبی سے منسلک معاملات اور پارٹی کی مجموعی صورتحال شامل تھی، اجلاس میں مذکورہ تمام معاملات پر سیر حاصل بجث کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات تین ماہ کے لیئے ملتوی ہوگئے ہیں، جبکہ اجلاس میں انتخابات کی تیاریوں اور امیدواروں کو ٹکٹس دینے کے معاملات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں سید نوید قمر نے ایف اے ٹی ایف کے سلسلے میں ہونے والی حالیہ قانونسازی پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایف اے ٹی ایف سے منسلک بلز کو مقررہ ڈیڈلائین کی آخری گھڑیوں میں پیش کیا، تاکہ ان پر تفصیلی جائزہ نہ لیا جا سکے۔ موجودہ حکومت نے اس اقدام کے ذریعے ایک بار پھر پارلیمان کو ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی، لیکن اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے محدود وقت کے باوجود یہ یقینی بنایا کہ عام شہریوں کے آئینی حقوق متاثر نہ ہوں۔ حکومت نے بلز میں ایسی شقیں شامل کی تھیں، جن سے عام شہریوں کے حقوق سلب کیئے جاتے، اور وہ ریاست کے خوف میں مبتلا رہتے۔ اپوزیشن اور خاس طور پر پیپلز پارٹی نے تین ایسے قونین ہیں، جن پر پوزیشن لی ہے۔ ان قوانین میں سے دہشتگردی کے متعلق قانون ایسا ہے کہ اگر وہ منظور ہوا تو اس کی زد میں ہر شہری آئے گا، کیونکہ اس میں دہشتگردی کی جو وصف بیان کی گئی ہے وہ بہت وسیع ہے۔ یہ قانون فقط کالا قانون نہیں ہے، بلکہ "شاہ کالا قانون” ہے۔
اگر دوسرا قانون سی آر پی سی میں ترامیم کے متعلق ہیں، جن کی مثال فقط ہٹلز اور مسولینی کے ادورا میں ملنا ہی ممکن ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ انویسٹیگیشن افسر کے پاس لامحدود اختیارات ہونے چاہیئں۔ تیسرا بل اینٹی منی لانڈرنگ کے متعلق ہے، جس کے نتیجے میں ایک چیز ضرور ہوگی کہ پوری قوم کی ذہنیت مخبر جیسی بنادے گی۔ اس بل کے ذریعے شہری کی کانفیژیڈنلٹی کو روند ڈالا گیا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مل کر ان قوانین کا ڈت کر مقابلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا معاملہ کا نیب کا تھا، جو سب کے سامنے ہے۔ پیٹریاٹ بنانے میں نیب کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ نیب کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ موجود رپورٹ میں جس طرح بے نقاب کیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ کی آبزرویشنز اور فیصلے نے نیب کو زیرو کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کو اس وقت نیب کی جانبب سے طلب کرنی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ماضی میں پیش ہوتے رہے ہیں، اور اگر ضروری ہوا تو پھر ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیمیں چاہتی ہیں کہ پارٹی کارکنان نیب آفس کے آگے پیش ہوں۔ لیکن صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ کارکنان وہاں جمع نہ ہوں، میں نے پہلے بھی نیب مقدمات کا سامنا کیا ہے، اب بھی کروں گا۔ پارٹی شکر اور آٹے کے بحران جیسے مسائل پر احتجاج کرے۔ رضا ربانی نے کہا کہ اجلاس کے دوران سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے کراچی کے متعلق بیان کا جائزہ لیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بنی ہے، تب سے پی ٹی آئی کبھی گورنر راج کی بات کرتی ہے تو کبھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی بات کرتی ہے۔ پی ٹی آئی آئین میں موجود وفاقی تصور کو تسلیم نہیں کرتی۔ کراچی کو وفاق کے ماتحت بنانا سینٹرلائیزیشن کرنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آٸی پاکستان کو 1962 والے آئیں کی طرف طرف لے جانا چاہتی ہے۔ 1962 کے آئین میں کابینہ پارلمان کو جوابدہ نہیں تھی۔
اس وقت بھی یہ لوگ پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہیں کیونکہ اسپیشل اسسٹنٹس پارلیمان نہیں آتے اور 18 سے زائد آفراد کابینہ میں ایسے ہیں جن کے پاس وزراہ کے اختیارات ہیں۔ اور وہ پارلیمان کو جوابدہ نہیں کراچی کے مساٸل کا حل اور انتظام سندھ حکوت کی ذمہ داری ہے۔ کراچی کے مساٸل کو پیپلز پارٹی احسن طریقے سے حل کرے گی۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سازش پرانی ہے۔ کراچی کے روینیو کو اسلام آباد استعمال کرنا چاہتا ہے سندھ کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔رضا ربانی نے کہا کہ پارٹی جمہوری قوتوں سے روابط بڑھائے گی اور پی پی پی چیٸرمین بلاول بھٹو زرداری جمہوری جماعتیں اور سول سوسائٹی اراکین سے ملاقات کریں گے، مزدور سول سوساٸٹی سے بھی راوبط بڑھائے جاٸیں گے۔
اس موقعے پر پی پی پی رہنما لطیف کھوسہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور آصف علی زرادری کو نشانہ بنایا گیا، مشرف نے بھی اس نیب کو استعمال کیا۔ چوہدری پرویز الاہی اور دیگر بھی نیب زدہ تھے۔ نیب نے ایک ہی کیس میں دو سابق وزراء اعظم نواز شریف اور مخدوم یوسف رضا گیلانی اور ساتھ ہی ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی بلایا ہے۔ یہ سب توشہ خانہ کے کیس میں ہورہا ہے۔ جس میں تحفے میں لی گئی گاڑی کو شفاف انداز میں خریدا گیا اور رقم دی گئ۔ جس میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا، گاڑی لی گٸی اور شفاف طریقے کے ذریعے لی گئی۔اس سے قبل دیگر حکمران بھی ایسے اداٸیگی اور خریداری کر چکے ہیں۔اگر ایسے معاملے میں اعتراض تھا تو نوٹس دیتے۔ نیب کا اس میں کیا کام مگر پھر بھی آصف علی زرادری پیش ہونگے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جہاں غیر آٸینی کام ہو اس پر وکیل کی ذمہ داری ہے احتجاج کرے۔ وکلاء 17 تاریخ کو پیش ہونگے مقدمے کا دفاع کریں گے۔
لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف بھی ریفرنس ہیں جسکا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، نیب بلاتا ہے تو وہ کہتے ہیں مجھے کچھ پتہ نہیں۔ جعلی اکاٶنٹ اور پارک لین پر قرضہ جات لینے کے مقدمے میں آصف علی زراری فریق نہیں ہیں نیب کو اس میں اختیار بھی نہیں مگر میڈیا ٹراٸل کیا جارہا ہے ، پہلے عثمان بزدار کو گرفتار کریں ان پر کیس کریں جو ہوٹل بنا نہیں تو کیسے لاٸسنس دیا گیا ہے ، اس موقعے پر ایک سوال کے جواب میں میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ہم اٹھاروین ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ایف اے ٹی ایف کے قوانین میں بنیادی انسانی حقوق کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی نوبت لایا کون یہ سب سمجھتے ہیں۔ پارٹی کی سوچ یکسان اور متحد ہےاس وقت ملک کے حالات دس پندرہ سال سے مختلف ہیں۔ حالات کو مدنظر رکھ کر تبدیلی کی جارہی ہے مگر اپنے اصولوں پر قاٸم ہیں۔ہمارے سامنے اس وقت ایک ہی مسلم لیگ ن ہے، حکومت مختلف جماعتوں کو بکھیر کرکے غلط فھمیاں پیدا کرنا چاہتی ہے۔