میر شکیل الرحمٰن، ایڈیٹرانچیف اور سی ای او جنگ گروپ، جیو کو گرفتار ہوئے تقریبا ساڑھے چار مہینے گذر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سعد رفیق کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں نیب کے بارے میں جو کہا گیا ہے اس سے بہت سی باتیں واضح ہو چکی ہیں کہ نیب سے اصل میں کیا کام لیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جنگ ، جیو اور ڈان گروپس موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے بعد مسلسل نشانے پر ہیں۔ اس کیلئے اسلام آباد دھرنے کے دوران وزیراعظم عمران خان کی جنگ ، جیو اور اس کے سی ای اور میر شکیل الرحمٰن کے بارے میں اختیار کیا ہوا لب و لہجہ۔ جیو کے رپورٹرز اور کیمرہ مین کے ساتھ پی ٹی آئی کے جلسوں میں روا رکھا جانے والا رویہ اس بات کے گواہ ہیں کہ میر شکیل الرحمٰن موجودہ حکمرانوں کے غصے کا نشانہ بنے ہیں، باقی چونتیس سال پرانا کیس تو ایک بہانہ ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنانے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ان کو "سائز” میں لانا اور دیگر چھوٹے میڈیا ہائوسز کیلئے مثال قائم کرنا کہ وہ سبق حاصل کریں ، جب حکومت ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوسز کے ساتھ یہ برتائو کر سکتی ہیں تو دیگر کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس سے دیگر ادارے ڈر کر حکومت کے ہمنوا بنیں۔جیسے احکامات آئیں ان پر من و عن عمل کریں۔ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو حکمرانوں کو بری لگے۔ آئین پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت ہے اور عالمی قوانین بھی موجود ہیں لیکن، ان سے بچنے کیلئے پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کیسز کا سہارا لے کر میڈیا ہائوسز کے مالکان کو جیل میں بٹھا نا اور حراساں کرنا ہے۔
پاکستان کے عوام کو اچھی طرح یاد ہے، پاکستان کے بڑے میڈیا ہائوسز، جنگ گروپ ، ڈان گروپ اور دیگر نے ہرحکومت وقت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کئی مقامات پر ایسا محسوس ہوا کہ یہ میڈیا ہائوسز حدیں پار کر رہے ہیں ، لیکن اس وقت کی حکومتوں نے ایسا قدم کبھی نہیں اٹھایا کہ میڈیا ہائوس کے مالک کو جیل میں ڈال دے۔ اس کی سب سے بڑی مثال، اسی جیو ٹی وی پر بیٹھ کر ڈاکٹر شاہد مسعود اور دیگر اینکرز اس وقت کے صدر، آصف علی زرداری پر شدید تقید ہی نہیں بلکہ براہ راست دہمکی بھی دیتے تھے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک سے زائد پروگرامز میں کہا تھا کہ آصف علی زرداری ایوان صدر سے ایمبولینس میں نکلیں گے۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر شدید تنقید کے ساتھ اس کی ڈمی بناکر طنز کا نشانا بنایا جاتا رہا۔ اور یہ سلسلہ تو گیلانی صاحب کے وزارت عظمیٰ سے چلے جانے کے بعد بھی جاری رہا۔
اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کیلئے جو الفاظ استعمال کئے جاتے رہے، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ دی نیوز میں شاہین صہبائی جو زبان استعمال کیاکرتا تھا وہ صحافتی تو قطعی نہیں تھی لیکن ان ساری باتوں کے باوجود آصف علی زرداری، گیلانی صاحب یا اس وقت کی حکومت نے جنگ ، جیو ، دی نیوز کے خلاف کوئی قدم اٹھایا نہ کسی پرانے کیس کا سہارا لے کر ان کو تکلیف پہنچائی۔ لیکن موجودہ حکومت میں ابھی تو وزیراعظم عمران خان کی ڈمی بنی ہے نا ان پر ذاتی حملے ہوئے نہ یہ کہا گیا کہ وہ وزیراعظم ہائوس سے ایمبولینس میں نکلیں گے۔ لیکن پھر بھی میرشکیل الرحمٰن جو چار مہینوں سے جیل میں رکھا ہوا ہے۔ ان کی ضمانت نہیں ہونے دی جا رہی۔ پاکستان میں صحافیوں کی بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر ملکی ، عالمی تنظیموں نے میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اور ان کی آزادی کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں۔
میر شکیل الرحمٰن، ان کے ادارے کی پالیسی سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس کو اپنی بہتر کارکردگی سے جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن ان کو مسلسل جیل میں رکھنا اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ اپنی انا اور ضد کو پورا کرنے یا کسی کی خواہش پر انہیں مسلسل جیل میں رکھنا مناسب نہیں۔ جبکہ انہیں نیب میں جب بھی بلایا، وہ پیش ہوئے۔ حکومت کو عدالت میں میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرنی چاہیئے۔ حکومت نے انہیں جیل میں رکھ کر دیکھ لیا، ان کو دبائو میں لانے کے بجائے۔ حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دے اور اظہار رائے کی آزادی کی پاسداری کرے۔ اس سے ہی جمہوریت اور ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔اور حکمرانوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔
رہا سوال کہ میر شکیل الرحمٰن پر غصہ ختم کیوں نہیں ہو رہا؟ اس کے جواب بہت سے ہو سکتے ہیں، اور بہتر ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد میرشکیل الرحمٰن خود جواب دے لیکن حالات پر نظر رکھنے والے تو اس سوال کا جواب اچھی طرح جانتے ہیں۔