خصوصی رپورٹ
قاضی آصف

کراچی شہر اور اس کے آس پاس بارش کے پانی کے نکاسی کے قدرتی راستوں کے ساتھ گذشتہ چالیس سالوں کے دوران جو حشر ہوا ہے، اس کا نتیجہ شہر بھگت رہا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے صرف کسی پر الزام لگانا کافی نہیں ہے۔ کراچی کے نالوں کی صفائی اور بارش کے پانی کی نکاسی کی بنیادی ذمہ داری کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کی ہے جو وہ نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

آیئے اس سلسلے میں مشہور ماہر شہری منصوبہ بندی، جناب عارف حسن کی تحقیق کی مدد سے اس مسئلے کی بنیادی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ سولجر بازار ڈرین کی صورتحال ہے، اس پر دو بینک اور سنار مارکیٹ تعمیر کی گئیں ہیں۔
اسی ڈرینج پر گرلز کالج کا ایک حصہ، گورنمنٹ اسکول، شاہین کمپلیکس ، سپریم کورٹ کی کار پارکنگ، حتاکہ صوبائی محتسب کا دفتر بھی اسی نالے پر بنا ہوا ہے۔ اسی ڈرینیج پر کے ایم سی مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ تعمیر ہے۔
لیاری میں محمد شاھ روڈ پر پچرڈ نالے پر ککری گرائونڈ کا ایک حصہ تعمیر ہے۔ گوشت مارکیٹ بھی اسی پر تعمیر ہے۔
السید محمد شان روڈ پر یہ دو مساجد بھی نالے کے اوپر تعمیر کی گئی ہیں۔
منظور کالونی نالے پر کورنگی روڈ پر، اس چوڑائی کم کرکے ، اسے چھوٹا کردیا گیا ۔ قیوم آباد کے پاس اس کو مٹی سے بھر کر ڈی ایچ اے نے زمین نکال کر بنگلے تعمیر کردیئے گئے۔
کینٹ اسٹیشن سے آنے والے نالا کلفٹن تک پہنچتے پچاس فٹ چوڑا ہوجاتا تھا لیکن اس پر جماعت خانہ تعمیر کرکے اس کو ۳۶ انچ کے پائپ میں تبدیل کردیا گیا جو نہر خیام میں جاکر گرتا ہے۔
مدینہ کالونہ کے نالے کی حالت دیکھ سکتے ہیں اور سنگر چورنگی پر بھی نالے کی نکاسی کم ہو کر رہ جاتی ہے۔

یہ اورنگی کا سب سے بڑا نالا ہے۔ جس کو دونوں اطراف میں انکروچمنٹ کرکے چھوٹا کیا گیا ہے۔ جہاں کل کی بارش میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔
میانوالی نالے کو پائپس لگا کر چھوڑا کردیا گیا۔ اس سے پانی کا اخراج کم ہوتا ہے۔ جبکہ سب سے بری حالت گجر نالہ کی ہے جو ڈھائی سو فٹ چوڑا تھا لیکن اب ساٹھ اسی فٹ کا رہ گیا ہے اس کو بھی جگہ جگہ پائپ لگا کر پانی کے بہائو کو متاثر کیا گیا ہے۔
یہ ہریانہ نالہ تھا، اب اس کی حالت یہ ہے، اس کو مکمل طور پر انکروچمنٹ کرکے اس پرتعمیرات کردی گئیں۔
یہ کراچی میں پانی کے قدرتی راستوں کا نقشہ ہے ہاں سے بارش اور ڈرینج کا پانی گذر کر لیاری یا ملیر ندی اور براہ راست سمندر میں جاکر گرتے ہیں۔
اس صورتحال میں شہر ڈوبے کا نہیں تو کیا ہوگا؟ گذشتہ چالیس سالوں میں شہر کے ساتھ جو حشر کیا گیا ہے اس کا حساب ان سے لیا جائے جو اس وقت سفید و سیاہ کے مالک تھے لیکن موجودہ حکومت کو ان پرانی بیماریوں کا اعلاج تلاش کر کے شہریوں کو اس عذاب سے نجات دلانی ہے۔ ِ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here