چیف جسٹس گلزار احمد نے شارع فیصل اور شاہراہ قائدین کے سنگم پر قائم کثیر المنزلہ رہائشی عمارت نسلہ ٹاؤر کو گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ ہم پلاٹ کی لیزکینسل کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 8 اپریل بروز جمعرات شاہراہ قائدین اور شارع فیصل تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ بتائیں شاہراہ قائدین نالے پر قائم عمارت کا کیا ہوا؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی سے نے بتایا ہے کہ نالے پر عمارت نہیں ہے۔
جواب پر چیف جسٹس گلزار احمد کمشنر کراچی پر برہم ہوگئے اور کہا کہ ایس بی سی اے کو چھوڑیں، آپ کو براہ راست حکم کا مطلب آپ کو جواب دینا ہے، پوری بلڈنگ ہی نالے پر کھڑی ہے۔ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ شاہراہ قائدین پر نسلہ ٹاور سے متعلق بلڈر کو بلا کر پوچھا جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہاں ایس بی سی سے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے۔ 50سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟ کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے ؟ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے ڈی جی ایس بی سے اے کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ نرسری پر واقع نسلہ ٹاور کو گرانے کا کام شروع کریں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کس نے لیز دی وہ بھی ذمہ دار ہے۔ نسلہ ٹاور غیرقانونی بنا ہوا ہے، بلڈر تو غائب ہے۔ بلڈر نے رپورٹ بھی اپنے حق میں بنوالی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایس بی سی اے کہاں ہیں ؟ آپ ہمارے سامنے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ڈی جی ایس بی سی اے نے عدالت کو جواب دیا کہ سٹرک کی ری الاٹمنٹ سے پلاٹ نکلا۔
عدالت نے کہا کہ کیا پھر بییچ دیں گے، کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے۔ سپریم کورٹ کا لے آوَٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے؟۔ آپ لوگ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے۔ آپ لوگ کل وزیراعلی ٰہاوَس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے۔ ہمارے سامنے ایسی غلط باتیں مت کریں، سب معلوم ہے۔ آپ ریکارڈ ڈیجیٹلائز کیوں نہیں کرتے؟۔ دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کون چلا رہا ہے۔ ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا کر لاکھڑا کردیا گیا۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ ڈی جی ایس بی سی اے ہیں۔ ہر ماہ ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے۔ سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے۔ سب معلوم ہے کیا ہو رہا ہے، ان اداروں کا حال برا ہے ، آپ کچھ اعتراض کریں گے تو آپ کو ہٹا دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان کراچی میں موجود ہیں، جہاں وہ کراچی رجسٹری میں تجاوزات اور سرکلر ریلوے سمیت اہم مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ ، چیف سیکریٹری اور ڈی جی ایس بی سی اے کو نوٹس جاری کيے گئے۔
قبل ازیں چیف جسٹس کی آمد پر گجر نالے کے متاثرین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد اپنے کیسز میں اضاف کی طلب کیلئے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر جمع ہوئی۔
کراچی رجسٹری کے باہر ٹیچرز بھی بڑی تعداد میں احتجاج میں موجود رہے۔ احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سےٹیچر کو دھکا دیا گیا ، جس پر وہ غصے میں آگئے۔ معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے سینیر پولیس افسر نے مذکورہ ٹیچر کے پاس جا کر بات کی اور معاملہ رفع دفع کرایا۔
واضح رہے کہ کراچی رجسٹری کے باہر احتجاج کرنے والے یہ کنٹریکٹ ٹیچرز ہیں، جنہیں گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔