کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبے بھر کے 43 ہزار سے زائد پرپرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کو مکمل جی پی ایس کے ذریعے گوگل میپ پر لوکیٹ کردیا گیا ہے۔ صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ میں سرکاری اسکولوں کو یونین کونسل اور یونین کمیٹی کی سطح پر کلسٹر کردیا گیا ہے اور آئندہ 3 سال کے اندر اندر ورلڈ بینک اور دیگر کے اشتراک سے صوبے میں ہر یونین کونسل اور یونین کمیٹی میں 2 کلومیٹر کے اندر آنے والے اسکولوں میں سے ایک اسکول کو ایلمنٹری اسکول کا درجہ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پہلے 3 سال کے دوران 1 ہزار ایلمنٹری اسکولز بنائیں جائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں یہ تعداد 2 ہزار تک بڑھا دی جائے گی۔ ہر ایلمنٹری اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہی اس کلسٹر میں آنے والے اسکول کے انتظامی اور مالی معاملات کا ذمہ دار ہوگا اور اس کا تعلق مذکورہ علاقے اور کمییونٹی سے ہو اس کی کوشش کی جائے گی تاکہ وہ اس علاقے کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی ماحول سے آگاہی رکھتا ہو اور وہ اپنے کلسٹر کی اسکولوں میں اسکول سے باہر بچوں کو اسکول میں داخلہ کے لئے اپنا کردار ادا کرسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے دفتر میں منعقدہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ریفارم سپورٹ یونٹ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں سیکرٹری تعلیم سندھ احمد بخش ناریجو، ایم ڈی سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن قاضی کبیر، چیف پروگرام مینیجر ریفارم سپورٹ یونٹ زبیر چنا، دلاور منگی، پروگرام مینیجر امان اللہ کلہوڑ، آفتاب عالم، ڈائریکٹر اسکولز رسول بخش شاہ، ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ شاہ میر اور دیگر اعلیٰ افسران شریک تھے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ ریفارم سپورٹ یونٹ (آف ایس یو) کے تحت صوبے کے 29 اضلاع کے 43 ہزار سے زائد پرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولز کا یونین کونسل اور یونین کمیٹی کے تحت 2 کلومیٹر کے اندر آنے والے اسکولوں کا کلسٹر کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔صوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ تمام ڈسٹرکٹ میں ان تمام اسکولوں کو جی پی ایس کے تحت گوگل پر لوکیٹ کردیا گیا ہے اور آئندہ صوبے کے کسی بھی اسکول کی لوکیشن کو گوگل میپ کے تحت لوکیٹ کیا جاسکے گا۔ آر ایس یو کے چیف پروگرام مینیجر نے بتایا کہ ان تمام اسکولوں کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیا گیا ہے کو 2 کلومیٹر کے اندر مذکورہ یوسی میں موجود ہیں اور اب ان کا کلسٹر بھی بنا لیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں ہر یوسی کی سطح پر 4 سے 5 اسکولوں کا ایک کلسٹر ہوگا اور اس میں ایک مڈل ایلمینٹری اسکول بنایا جائے گا اور اس کا ہیڈ ماسٹر ہی ان تمام اسکولوں کے انتظامی اور مالی معاملات کو دیکھے گا اور اس کو جوابدار ہوگا۔انہوں بتایا کہ کلسٹر کے تحت یوسی کی سطح پر اس وقت 6 ہزار میں سے 4 ہزار ایلیمنٹری اسکولز موجود ہیں اور مزید ہمیں 2 ہزار ایلیمنٹری اسکولز بنانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لئے اس پروگرام کے تحت مذکورہ ہیڈ ماسٹر جو کہ اسی یوسی اور اس علاقے کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافت سے وابستہ ہو اسی کا بنایا جائے گا تاکہ وہ اس علاقے کے حوالے سے وہاں کی کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر ان بچوں کو جو اب تک اسکولوں سے دور ہیں ان کو اسکولوں میں داخلہ کروا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر یوسی میں وہ اسکول جن میں انرولمنٹ 30 بچوں سے کم ہوگا اس کو اسی یوسی کی 2 کلومیٹر کی دوسری اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا اور اس اسکول کا سمز کوڈ ختم کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پروگرام کے تحت اس بات پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ ہر یوسی میں لازمی ایک گرلز اور ایک بوائز ایلیمنٹری اسکول ہو تاکہ اس میں پہلی سے آٹھویں تک یہ لازمی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت یوسی کی سطح پر ان اسکولوں کی مانیٹرنگ کے لئے کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں اور ان کمیٹیوں میں لازمی اس اسکول کے طلبہ کے والدین، علاقے کے سماجی رہنماؤں، سیاسی لوگوں اور محکموں کے لوگوں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ ان اسکولوں کو خو د بھی مانیٹر کریں اور اسے اپنے تئین اوون بھی کریں۔ سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے تحت صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے اور صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لئے ہر پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ایسے علاقے ہیں جس کی جغرافیائی لحاظ سے وہاں کی آبادی روزگار کے لئے مختلف علاقوں میں ہجرت کرتی رہتی ہے اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے بچوں کو بھی اسکولوں میں لایا جائے اور اگر وہ دوسری جگہ ہجرت کرتے ہیں تو انہیں اس علاقے کی دوسری اسکولوں میں داخلہ باآسانی مل جائے تاکہ ان کے بچے اسکولوں سے باہر نہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تعلیمی میدان میں انقلاب کے خواہ ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جس طرح ہم نے دیگر شعبوں میں انقلابی اقدامات کئے ہیں اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی انقلابی اقدامات کو یقینی بنائیں اور دنیا بھی میں کوووڈ کے باعث جو تعلیمی نقصان ملک اور بالخصوص صوبہ سندھ میں ہوا ہے اس کا بھرپور ازالہ کیا جاسکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here