اسٹاف رپورٹر
کراچی : پاکستان فشر فوک فورم کی طرف سے گذشتہ روز ابراہیم حیدری میں ماہی گیروں کے مسائل پر ماہی گیر کنونشن منعقد کیا گیا، جس میں کراچی سمیت ٹھٹہ، سجاول، بدین، عمرکوٹ، سانگھڑ، حیدرآباد، جامشورو، لاڑکانہ و دیگر اضلاع سے ہزاروں ماہی گیروں، عورتوں اور بچوں سمیت ڈپٹی کمشنر ملیر گنھور خان لغاری، ایڈمنسٹریٹر ضلع کونسل کراچی نور حسن جوکھیہ، پاکستان پیپلز پارٹی PS-91 ضلع ملیر کے صدر جان عالم جاموٹ، سردار سہیل شفیع جاموٹ و مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ماہی گیر کنونشن کے دوران پاکستان فشر فوک فورم کی نومنتخب مرکزی ایگزیکیوٹو کمیٹی کے عہدیداران کی حلف برداری ہوئی، جس میں نومنتخب عہدیداران چیئرمین مہران علی شاہ، وائس چیئرمین نور محمد تھیمور، سینئر وائس چیئرپرسن یاسمین شاہ، جنرل سیکریٹری محمد رمضان ملاح، ڈپٹی جنرل سیکریٹری الہہ بچایو ملاح، خزانچی ذلیخاں، انفارمیشن سیکریٹری عبدالمجید ملاح اور کمیونیکیشن سیکریٹری محمد اسلم ملاح نے حلف اٹھایا کہ وہ پاکستان فشر فوک فورم کے مقاصد سے متفق ہیں اور ان کے مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے اور تنظیم کے قوائد اور ضوابط پر پابندی سے عمل کریں گے اور ماہی گیروں کے حقوق کی اجتماعی ترقی، خوشحالی اور حقوق کی اِس سماجی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔
اس موقع پر ماہی گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فشر فوک فورم کے نومنتخب چیئرمین مہران علی شاہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں، دریاؤں اور جھیلوں کے لاکھوں ماہی گیر قدرتی وسائل سے بے اختیار اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کے علاوہ حکومت کی عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ماہی گیروں کی روزگار کو حد سے زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ سندھ کی 350 کلومیٹر پر محیط ساحلی پٹی اور 1209 دریائی پانی اور جھیلوں پر روزگار حاصل کرنے والے 20 لاکھ سے زائد ماہی گیر خاندان حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہیں، لیکن انہیں سمندر، دریاء اور جھیلوں جیسے قدرتی وسائل سے بے اختیار کیا گیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان فشر فوک فورم کے پلیٹ فارم سے بھرپور عملی جدوجہد کا اعلان بھی کیا۔
ماہی گیر کنونشن سے ڈپٹی کمشنر ملیر گنھور خان لغاری نے کہا کہ سندھ سمندر کو عربی سمندر کہنا بیوقوفی ہے، ہم سمندر کو سندھ سمندر کا نام دیتے ہیں، کیونکہ یہ علاقہ دریائے سندھ کا آخری حصہ ہے، جس کی وجہ سے یہاں تک میٹھا پانی موجود ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع ملیر کے ماہی گیروں کے حقوق کے حصول کیلئے وہ بھرپور اقدام اٹھائیں گے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی PS-91 ضلع ملیر کے صدر جان عالم جاموٹ نے کہا کہ پاکستان فشر فوک فورم کا وجود ابراہیم حیدری میں رکھا گیا اور جاموٹ خاندان نے روز اول سے پاکستان فشر فوک فورم کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اس موقع پر ضلع کونسل کراچی کے ایڈمنسٹریٹر نور حسن جوکھیہ، پاکستان پیپلز پارٹی منارٹی ونگ سندھ کے نائب صدر مکھی اودھا مل، پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی عہدیداران یاسمین شاہ، نور محمد تھیمور، محمد رمضان ملاح و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
ماہی گیر کنونشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ
٭ سمندر، دریاء اور جھیلوں پر آباد ماہی گیر بستیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر کے ماہی گیروں کو تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی سمیت تمام سہولیات مہیا کی جائیں۔
٭ یہ کنونشن مطالبہ کرتا ہے کہ تمام میٹھے پانیوں سے ٹھیکیداری نظام کے خاتمے اور لائسنس سسٹم کے بعد ماہی گیروں کے فطری روزگار کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ماہی گیروں کو مچھلی کے شکار کے حقوق فراہم کئے جائین اور کرپٹ فشریز افسران، سابقہ ٹھیکیداروں اور بااثر افراد کیخلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
٭ پاکستان سے قبل ماہی گیروں کے پاس اپنی جیٹیاں ہوتی تھیں جو سرکاری اداروں ڈی ایچ اے، پورٹ قاسم، کے پی ٹی اور سیکورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لی ہیں اور ماہی گیروں کو زبردستی بیدخل کر کے انہیں بیروزگار کیا جارہا ہے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ کراچی کے سمندر کنارے ماہی گیروں کی قدیم جیٹیاں بحال کر کے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے اور ڈی ایچ اے کی طرف سے گزری کے غریب ماہی گیروں کی بیدخلی کو روک کر سمندر کنارے کشتیاں کھڑی کرنے کی اجازت دی جائے۔
٭ تمر کی جڑوں میں جھینگے مچھلی کی نسل افزائش ہوتی ہے، تمر کے جنگلات سمندری طوفان سے بچاؤ میں ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں، تمر کے جنگلات کو بیدردی سے کاٹا جارہا ہے، اگر تمر کے جنگلات کی کٹائی اسی طرح جاری رہے تو کراچی شہر سمندری طوفان کی زد میں آکر تباہی کے دہانی پہنچ جائیگا۔
٭ 1955ء کے بعد سمندری حدود سیر کریک کا بہانہ بناکر پاکستان اور ہندوستان حکومتوں نے ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی کی آڑ میں گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ تاحال جاری ہے۔ روزگار کی تلاش میں جانے والے ماہی گیروں کو سمندری حدود کے واضح نشانات نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ماہی گیر حدود پار کر جاتے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ گرفتار ماہی گیروں کو کئی سال جیلوں میں گذارنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ورثہ و خاندانوں کو شدید مشکلات و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ سیر کریک و سمندری حدود کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے اور غریب ماہی گیروں کی گرفتاری کا سلسلہ بند کیا جائے اور قیدی ماہی گیروں کے خاندانوں کی مالی اعانت کی جائے۔
٭ ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، خورد و نوش سے لیکر ہر چھوٹی بڑی چیز مہنگی ہوگئی ہے لیکن مچھلی اور جھینگے کا ریٹ دو دہائی قبل کا ہی برقرار ہے۔ عام ماہی گیر کشتی میں جو راشن، ڈیزل، جال و دیگر سامان لیکر جاتے ہیں ان کے ریٹ دن بدن مہنگے ہو رہے ہیں اور وہ جو مچھلی مار کر مارکیٹ میں آتے ہیں تو بیوپاری، مول ہولڈر، فش مالکان، ایکسپورٹرز مختلف بہانوں سے مچھلی کا ریٹ کم کردیتے ہیں، من مانے دام لگاتے ہیں، مرضی سے غیر قانونی پرسنٹیج کاٹتے ہیں، جس کی وجہ سے ماہی گیروں کو بچوں کی دو وقت کی روٹی کے پیسے بھی نہیں بچ پاتے اور وہ مسلسل نقصان میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ماہی گیروں کو سستے نرخ پر ڈیزل اور ماہی گیری سے منسلک اشیاء فراہم کی جائیں اور ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس سے مچھلی کا ریٹ مستحکم ہو اور ماہی گیر معاشی ترقی کرسکیں۔
٭ انڈس ڈیلٹا کو 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کی فراہمی لازمی ہے اور یہ پانی اسے مہیا کیا جائے تاکہ انڈس ڈیلٹا کی ماحولیات برقرار رہے۔ دریائے سندھ اپنے ساتھ یومیہ 10 لاکھ ٹن زرخیز مٹی بہا کر لے آتا تھا، جس کے باعث اس علاقے کو زرخیز ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ اُس وقت انڈس ڈیلٹا کے لوگ خوشحال اور آسودہ تھے۔ ان لوگوں کے تین قسم کے ذریعہ معاش ہوا کرتے تھے۔ ایک زراعت، دوسرا مال مویشی اور تیسرا ماہی گیری۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے، صدیوں سے آباد دیہاتوں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، دریائے سندھ خشک ہوگیا ہے اور کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کے متعلق اسٹڈیز اور تحقیقات کی بھر مار ہے لیکن تاحال پانی آنے کی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ دریائے سندھ سے انڈس ڈیلٹا کو 35 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جائے تاکہ انڈس ڈیلٹا اور وہاں آباد لاکھوں انسانوں کا مستقبل تباہی سے بچ سکے۔
٭ پاکستان فشر فوک فورم نے سمندری جزیروں کی زمین غیر ملکی کمپنی کو الاٹ کرنے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے جدید شہر کی تعمیرات کیخلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ اگر یہ شہر سمندر میں تعمیر کئے گئے تو ساحلِ سمندر کے کناروں پر صدیوں سے آباد لاکھوں ماہی گیر اپنے فطری روزگار سے محروم کردیئے جائیں گے، ماہی گیر بستیاں مسمار کر کے انہیں بیدخل کردیا جائیگا، سمندر کے متاثرہ علاقوں میں ماہی گیری کا عمل ختم ہوجائیگا، ماہی گیروں کی سمندری گذر گاہیں بند کردی جائیں گی۔ سمندر کا ماحولیاتی نظام تباہ ہوکر رہ جائیگا۔